جس طرح تحریک پاکستان کے نتیجے میں پاکستان قیام پذیر ہو سکا اسی طرح نظریہ پاکستان کی کوکھ سے تحریک پاکستان نے جنم لیا ۔ آل انڈیا کانگریس کے موقف کے مطابق ہندوستان میں رہنے والے سب لوگ ہندوستانی ہیں یعنی ایک قوم ہیں یہی مہا بھارت اور اکھنڈبھارت کا فلسفہ ہے ۔ مگر حضرت علامہ محمد اقبال نے 1930الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے صدارتی خطبے میں مسلمانوں کو نہ صرف علیحدہ قوم قرار دیا بلکہ اس کے لئے خطہ زمین کا انتخاب بھی کر ڈالا۔ حضرت علامہ کو مسلمانان ہند کی زبوں حالی اور پسپائی کی کیفیات نے بے چین کر رکھا تھا ۔آپ نے فرمایا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس خطہ میں اسلام الگ تمدنی قوت میں زندہ رہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کر سکے یعنی مسلمانوں کی تمدنی حیثیت برقرار رکھنا نظریہ پاکستان اور دوقومی نظریہ ٹھہرا۔ اس نظریے کی وضاحت حضرت قائداعظم کچھ یوں فرماتے ہیں کہ ہم مسلمان اپنے تابندہ تہذیب اور تمدن کے لحاظ سے ایک قوم ہیں ۔زبان ادب فنون لطیفہ، فن تعمیرات ،نام اور نام رکھنے کا طریقہ اقدار اور تناسب کا شعور، قانونی اور اخلاقی ضابطے ، رسوم اور جنتری ، تاریخ و روایات رجحانات اور امنگیں ہر لحاظ سے ہمارا انفرادی رویہ،اجتماعی نقطہ نگاہ اور فلسفہ حیات ایک ہے ۔ بین الاقوامی قانون کی تعریف کے مطابق ہم ایک قوم ہیں ۔1940ءمیں اسی بنیاد پر پاکستان کا مطالبہ کے ساتھ تحریک پاکستان کا آغاز ہوا جس میں ہمارے بزرگوں نے ایثارو اخلاص کی لافانی داستانیں رقم کیں جو نسل نو کے لئے سنگ میل بھی ہیں اور مشعل راہ بھی ۔
حیف صد حیف حصول آزادی کے کچھ عرصہ بعد ہی ہم نے نظریہ پاکستان کو فراموش کر دیا اور تحریک پاکستان سے بھی رو گردانی کرنے لگے ایسی ہی لغزشوں کے سبب بحرانوں کا شکار ہوتے چلے گئے ۔ ہم نہ صرف اپنی تاریخ کو بھول گئے بلکہ ہم اپنے تمدن کو بھی کھوتے جا رہے ہیں۔
راقم الحروف کو بھی دوست احباب یکسوئی کا شکار ہونے کا طعنہ دیتے ہیں ۔ تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان کا روز ڈھول پیٹتا رہتا ہوں ۔ ہر بار میرا ایک ہی جواب ہے کہ نظریہ پاکستان ہماری اصل ہے بنیاد ہے جب تک اسے نہیں اپنائیں گے تب تک تحریک پاکستان والا جذبہ پیدا ہونا ممکن نہیں ۔وہ ایثار واخلاص کے جذبے ہمیں منزل کی جانب لے جاسکتے ہیں ۔تعمیر پاکستان تکمیل پاکستان یعنی ایک جدید فلاحی اسلامی جمہوری پاکستان کا حصول نظریہ پاکستان سے ہی ممکن ہے۔ حال ہی میں اس ابدی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے جماعت اسلامی نے ازسر نو تحریک پاکستان کی تجدید کا اعلان کرتے ہوئے سہ روزہ کانفرنس 21,22,23 نومبر منعقد کی بعد ازاں 4,5دسمبر کو جماعة الدعوة نے نظریہ پاکستان کانفرنس برپا کر دی۔ جماعة الدعوة نے 23مارچ 2014 سے پہلے بھی ایسی کانفرنس منعقد کی تھی ۔دونوں اسلامی قوتوں کا حالیہ فیصلہ دور رس نتائج کا حامل بھی ہے اور قومی زندگی میں سمت نما کا کردار بھی ثابت ہوگا۔ مینار پاکستان کے سائے میں جماعت اسلامی کا عالمی اجتماع جسے امیر جماعت اسلامی نے تحریک پاکستان کا تسلسل قرار دیا۔ اقبال پارک کے طول وارض میں بینروں کی بہار دکھائی دیتی تھی جس پر حضرت علامہ اقبال، قائداعظم اور امیر جماعت اسلامی کی تصاویر اس ترتیب میں تھیں خواب، تعبیر، تعمیر۔ اجتماع میں بے شمار علم و آگاہی کی کتب کے سٹال تھے مگر سب سے بڑا سٹال نظریہ پاکستان ٹرسٹ کا تھا جہاں امیر جماعت نے رک کر کتب پر سرسری نظر بھی ڈالی ۔ تین دن مسلسل قومی اور ملی مسائل اور ان کے حل پر فصیح و بلیغ اور دردمند صاحب دل حضرات کی تقاریر سننے کو ملیں۔ تقریب میں موجود بزرگ مسلم لیگی جناب بدرالزماں ورک متاثر ہو کر کہنے لگے کہ امیر جماعت نے تحریک پاکستان کی تجدید کرکے جماعت اسلامی کے تحریک پاکستان کے حوالے سے ماضی کے کردار کا کفارہ ادا کر دیا۔ جناب سراج الحق نے عوامی مسائل صحت و تعلیم بیروزگاری مہنگائی صنعت و تجارت خارجہ داخلہ سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی کے ہر موضوع پر مفصل اظہار خیال کرتے ہوئے وطن عزیز کو ایک فلاحی اسلامی ریاست بنانے کےلئے عزم نو کا اعلان کیا۔ بدرالزماں ورک کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کی نئی حکمت عملی سے اسے عوام الناس میں پزیرائی کے امکان روشن ہو رہے ہیں۔ مسلم لیگیوں کی خاموش اور مایوس اکثریت جناب سراج الحق کی آواز پر لبیک کہہ سکتی ہے۔ ایساہی ایک اجتماع دسمبر کو اسی تاریخی مقام پر جماعة الدعوة نے نظریہ پاکستان کے حوالہ سے کیا جس میں ملک کی کم و بیش تمام مذہبی جماعتوں اور اہم شخصیات نے شمولیت کرتے ہوئے نظریہ پاکستان کو دوام بخشنے کا عہد کیا۔ امیر جماعة الدعوة حافظ سعید نے ملت اسلامیہ کی زوالی کیفیات پر افسوس کرنے کی بجائے ایک وسیع ملت کے اتحاد پر زور دیا۔ حافظ سعید نے کہا کہ بھارت افغانستان کو فوج بھیج سکتا ہے تو مجاہدین کیوںنہیں جا سکتے؟ انہوں نے تجویز پیش کی کہ تمام مسلم ممالک اپنی کرنسی، اپنی فوج، مشترکہ دفاع بین الاسلامی عدالت انصاف قائم کریں۔ امریکی اور یورپی یونین بن سکتی ہے تو اسلامی یونین کیوں نہیں تشکیل دی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے اپنے ساتھیوں سمیت نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے اسے فلسطین میں اسرائیل اور کشمیر، حیدر آباد،گجرات اور آسام میں بھارت کی دہشتگردی نظر کیوں نہیں آتی؟حافظ صاحب نے پرجوش ماحول میں اعلان کیا کہ ہم نظریہ پاکستان کے مطابق پاکستان کو مدینہ کی طرز پر اسلامی مملکت بنا کر رہیں گے۔ اجتماع سے مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے مندوبین نے نظریہ پاکستان عام کرنے کا عہد کیا۔ اجتماع میں خاص مذہبی جوش اور قومی وقار دکھائی دے رہا تھا ۔
قارئین کرام !راقم کا اصرار ہے کہ جب تک ہم نظریہ پاکستان کو بنیاد بنا کر تحریک پاکستان والا ایثار و اخلاص کا وہی جذبہ جب تک قوم میں پیدا نہیں کر سکتے تب تک ہماری حالت زار تبدیل نہیں ہو سکتی۔کامیابی کا زینہ اور عافیت کا سفینہ نظریہ پاکستان ہے ان ولولوں اور جذبوں کو اجاگر کرنے کےلئے فکر اقبال اور فرمودات قائد کو عام کرنا ہوگا۔ حضرت قائد نے بتایا تھا کہ اتحاد، یقین اور تنظیم پر عمل پیرا ہو کر ہم پاکستان کو ایک فلاحی اسلامی جمہوری ریاست بنا سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی اور ان کے سربراہ جناب سراج الحق اور حافظ سعید کو اس نئے عہد عزم پر مبارکباد دیتا ہوں ۔
میری مانو چلو منجدھار میں طوفان سے ٹکرائیں
ورنہ دیکھنا ساحل پہ سب ڈوب جائیں گے