وہ جود یکھ نہیں سکتے

3دسمبر کو پوری دنیا میں معذوروں کا عالمی دن منایا گیا۔اُسی دن پاکستانی ’’بلائینڈ کرکٹ ٹیم‘‘نے آسٹریلیا کو شکست دیکر پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند کردئیے اور اِسی دن لاہور میں ملازمتوں میں مختص کوٹہ کے مطابق نوکریاں دینے کے حق میں مظاہرہ کرنے والے’’نابینا افراد‘‘ ’’وی آئی پی کلچر‘‘ کا نشانہ بن گئے۔ ’’وہ جو دیکھ نہیں سکتے‘‘۔ اُن پر پولیس نے لاٹھی چارج کر کے جنہوں نے بیرونی دنیا میں فتح کے جھنڈے گاڑے۔پاکستانیوں کے سر شرم سے جُھکا دئیے۔ وزیراعلیٰ نے اگرچہ واقعہ کے مرتکب اہلکاروں کو معطل کر دیا ہے مگر کیا صرف معطلی تلافی کر سکتی ہے؟۔ قومی اسمبلی میں معذور افراد کو خصوصی کوٹہ کے تحت روزگار فراہم کرنے کی قرار داد بھی منظور کروائی گئی۔ اِس کے علاوہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔لفاظی اور قرار داد سے آگے ہمارے پر جلتے ہیں۔ ’’ صاحبزادی‘‘ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کاش ’’وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم‘‘ ملک میں ہوتے تو شاید یہ واقعہ نہ ہوتا ۔کیا پولیس تشدد کرنے نہ کرنے کا حکم ’’وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم ‘‘ سے لیتی ہے۔کیا ’’سانحہ ماڈل ٹائون‘‘ والے دن ’’دونوں صاحبان‘‘ پاکستان میں نہیں تھے؟ رعونت، پولیس گردی اور پروٹوکول کے ناسور نے معذوروں کو بھی نہیں بخشا۔ تحقیقات کا حکم، معطلی، اچھا قدم ہے۔ معاملہ حل ہو گیا۔ نابینا افراد نے مار کھائی۔ سٹرکوں پر دھرنا دیا پھر خواری سمیٹ کر رخصت ہو گئے۔ سب سے دلچسپ بیان ’’پنجاب حکومت کے ترجمان‘‘ کا تھا کہ پولیس نے ڈنڈے نہیں برسائے بلکہ دھکے دئیے تھے۔ آنکھوں سے محروم افراد کو ڈنڈے ماریں یا دھکے دیں ہر دو صورت میں گر کر زخمی ہو گا۔ قانون کی عملداری کا قلمدان ’’پولیس‘‘ کے پاس ہے۔ انسانیت کا احترام ازبس ضروری ہے۔ ہمارے سیاسی و قانونی رکھوالے پاکستانی سوسائٹی کو ایک سخت گیر، منتقم، مستقل مزاج افراد میں بدلنے کی طرف لے جا رہے ہیں۔ ’’عالمی دن‘‘ پر جب بیرونی دنیا ’’معذور افراد‘‘ کے ساتھ احترام، یکجہتی کا دن منا رہی تھی۔ غیر انسانی تشدد، بربریت کا مظاہرہ۔ اِس دن کی مناسبت سے اِس سے بڑا حکومتی تحفہ نہیں ہو سکتا تھا۔ دلخراش واقعات کے ضمن میں کیا۔ ’’لاہور گینزبک آف ورلڈ‘‘ میں "Top Rank" کا متمنی ہے؟ انتظامیہ پولیس اتنی بے حس اور ظالم کیوں ہو چُکی ہے کہ معمولی سے بات پر گولیاں، لاٹھیاں، دھکم پیل پر اُتر آتی ہے۔ ایک نیٹ رپورٹ کے مطابق دنیا میں موجود ایک ’’ارب معذور افراد‘‘ میں ’’دو کروڑ‘‘ افراد کا تعلق پاکستان سے ہے۔90 فیصد روزگار سے محروم اور 72 فیصد ان پڑھ ہیں۔ معذور افراد کے لئے سماجی سطح پر ایسے حالات پیدا کر دئیے جاتے ہیں کہ نہ صرف معاشرہ کا ناکارہ حصہ بن جاتے ہیں بلکہ خود کی ذات بھی ان معذور لوگوں کو بہت بڑا بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اکثریت سڑکوں، محلوں میں بھیک مانگتے پھرتی ہے۔ پاکستان کی 20 کروڑ آبادی میں ’’دو کروڑ‘‘ معذور ہیں۔ اکثریت بصارت سے محروم افراد کی ہے۔ یہ تو قدرتی معذور کہلاتے ہیں۔ مگر اُن لوگوں کو کِس قطار میں شامل کریںجو اِس گھنائونی و حشت کے موجد بنے؟ معذور افراد کو معاشرے پر بوجھ سے زیادہ تصور نہیں کیا جاتا۔ مگر اِس بوجھ کو جب موقع ملتا ہے۔ تو وہ ناقابل تسخیر بن جاتا ہے۔’’بلائینڈ کرکٹ ٹیم‘‘ سیمی فائنل میں پہنچ چکی ہے۔ یہ تو دیکھ نہیں سکتے پھر بھی موقع ملنے پر سینکڑوں کارنامے پاکستان کے ماتھے کا جھومر بنا چُکے ہیں مگر وہ جو آنکھیں رکھتے ہیں۔ مثالی صحت کے مالک ہیں جن کو ’’68 سالوں‘‘ سے قوم برابر مسلسل مواقع دیتی آرہی۔ ’’موروثیت‘‘ کے باوجود کچھ بھی کارنامہ سرانجام دینے سے قاصر رہے۔۔اُن کو کِس صف میں لکھیں؟ وہ بھی نابینا ہیں جو آنکھیں رکھتے ہوئے بھی دکھائی دینے والے تعمیری عوام دوست کام نہیں کر رہے۔ ہمارے ہاں ہر واردات، سانحہ بس چند گھنٹوں کی خبر ہوتی ہے جو بریکنگ نیوز، بعدازاں نوٹس، تحقیقات کا حکم، امدادی چیک کی تقسیم کے لوازمات سے بھر پور’’دردناک کامیڈی فلم‘‘ کی طرح برقیاتی چینلز پر دکھائی جاتی ہیں۔

معذور افراد معاشرے کا مظلوم ترین، نظرانداز طبقہ ہیں۔ اپنے حق کے لئے آواز اٹھانا ہر شہری کا آئینی حق ہے۔ مگر اِس حق کو دبانے کی کوشش چاہیں ڈنڈا مار کر یا پھر دھکم پیل۔ کسی بھی طور جائز نہیں۔ ’’عدالت عظمیٰ‘‘ کو اس بربریت کا ضرور نوٹس لینا چاہئے۔ بظاہر تو ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ حکومت کو قانون کے رکھوالے ادارے کو حدود و قیود کا پابند بنانے اور قانون کے مطابق چلانے میں ناکامی کا سامنا ہے۔ یاد رکھیں کہ کڑی سزا ہی جرائم اور قانون شکنی اور حدود سے تجاوز جیسے واقعات کا تدارک کر سکتی ہے۔ جوشخص بھی اِس طرح کے کسی فعل کا ارتکاب کرے۔ اُس کو فوری طورپر برطرف کر دیں۔ پولیس میں تعلیم یافتہ لوگ بھرتی کئے جائیں۔ پہلے بھی کئی کالموں میں لکھا تھا کہ پولیس کی تربیت، افواج کی تربیت کے نہج پر کرنے کا بندو بست کیا جائے۔ قانون سے ہٹ کر بھی سوچیں تو ہمارا دین، اخلاقی اقدار، ضابطے حفاظت پر زور دیتے ہیں۔ معذور افراد کی بہترین دیکھ بھال ان کی حفاظت پر زور دیتے ہیں۔ قیادت باہمی مشاورت سے ایسا نظام تشکیل دے جو جمہوریت کو استحکام اور عوام کو روٹی اور بہترین امن فراہم کرے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...