نومبر میں یوں تو پاکستان میں خزاں شروع ہوجاتی ہے، درختوں کے پتے جھڑجاتے ہیں، شاخیں ٹنڈ منڈ ہوجاتی ہیں ،پودے بے بال و پرنظر آنے لگتے ہیں ، اداسی ہلکورے لیتی آتی ہے اوریاسیت نس نس میں گھس جاتی ہے۔ لیکن اب کی بار شدید موسمیاتی تبدیلیوں نے پاکستان کو ایسے گھیرے رکھا کہ جون اور جولائی میں گرمی پڑی تو کئی دہائی پرانے ریکارڈ ٹوٹ گئے اور اب سردی آئی ہے تو اگلی پچھلی کسریں پوری کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ شاید اِنہی موسمیاتی تبدیلیوں کا ہی اثر تھا کہ پاکستان کا سیاسی موسم بھی انتہائی ناقابل اعتبار ہوگیا۔ کہیں بہار میں خزاں کو ویرانیاں بکھیرنے جیسی ”بدمعاشیوں“ کی کھلی چھوٹ ملی تو کہیں خزاں میں بہار کا سا سماںباندھے رکھنے کا موقع قدرت نے عطا کردیا۔ اگست اور ستمبر میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے قائدین لاہور سے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ لے کر نکلے اور شہر اقتدار پہنچ کرڈی چوک میں دھرنے دیے تو شدید حبس کے موسم میں بھی لوگوں اور بالخصوص نوجوانوں کی بڑی تعداد نے تبدیلی کی اُمید کے جھکڑ چلتے محسوس کرنا شروع کردیے۔سیاسی موسم کی یہ بے اعتباری نومبر اور دسمبر کو اپنی لپیٹ میں لیے اِس خزاں میں بھی بہار کے بھرپور احساس کی صورت میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر نومبر کے آخر میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے اپنی مدت کا ایک سال ہی پورا نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے اِس ایک سال میں سیاسی نظام کو مستحکم کرنے سے لے کر شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندی کے خاتمے کیلئے شروع کیے جانے والے فوجی آپریشن تک کامیابیوں کی جو بہار کھلائی ہے وہ ایک ایسی داستانِ طلسم ِ ہوشربا ہے جو اِس سے پہلے کسی سپہ سالار کے حصے میں نہ آسکی۔ اسی دوران نومبر کے آخر میں ہی جنرل راحیل شریف ایک ہفتے کے سرکاری دورے پر امریکہ پہنچے تو آرمی چیف کو اپنے دورے میں مزید سات دنوں کی توسیع کرنا پڑی۔آرمی چیف کے اس دورے کی کامیابی کا اندازہ اُن کی آو¿بھگت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، ظاہر ہے کہ امریکہ کسی کو ”فری لنچ“ نہیں کراتا، یقینا اس آو¿ بھگت میں بھی امریکہ کا اپنا مفاد ضرور ہوگا، لیکن اپنی اہمیت کا احساس دلانے کا فن بھی تو جنرل راحیل شریف کی طرح ہر کسی کو نہیں آتا ناں!
موسم خزاں میں یہ جنرل راحیل شریف کی عسکری محاذ کے بعد سفارتی محاذ پر اہم ترین کامیابی ہی قرار دی جاسکتی ہے کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے عام تعطیل کے روز اپنی تمام نجی مصروفیات ترک کرکے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں جنرل راحیل شریف کو پاکستانی مفادات کا بہترین ترجمان اور پاک فوج کو بائنڈنگ فورس قرار دیا۔ یہ بھی جنرل راحیل شریف کے دورے کا ہی نتیجہ تھا کہ امریکی کانگریس نے پاکستان میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی کاررروائی کے لیے دیے جانے والے کولیشن سپورٹ فنڈ میں مزید ایک برس کی توسیع کو اپنی حتمی بجٹ تجاویز شامل کر لیاہے۔ دوسرے لفظوں میں امریکہ نے 521 ارب ڈالر کے دفاعی بجٹ میں پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مالی مدد کی معیاد ایک برس کے لیے بڑھا دی ہے۔ یہ امداد پاکستان کو ایسے ہی نہیں دی جارہی بلکہ قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق دہشت گردی کے خلاف ایک عشرے سے جاری جنگ کے دوران پاکستان 50 ہزار شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کا جانی نقصان اٹھاچکا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان میں گذشتہ دس سالوں میں دہشت گردی کےخلاف جنگ میں پاکستان کو 80 ارب ڈالرکا نقصان بھی پہنچ چکا ہے ، آرمی چیف نے اپنے دورہ امریکہ میں پاکستان کی ان قربانیوںکو بڑے احسن طریقے سے امریکہ کے سامنے رکھا، جس سے امریکہ کو پاکستان کا موقف سمجھنے میں مدد ملی۔ دہشت گردی کی جڑ اکھاڑنے کے سلسلے میں ایک کارروائی میںجنوبی وزیرستان میں پاکستان میں القاعدہ کے سربراہ عدنان الشکری الجمعہ کو ہلاک کردیا گیا۔اطلاعات کے مطابق چار اگست 1975 میں سعودی عرب میں پیدا ہونے والا عدنان الشکری القاعدہ کے مرکزی گروپ کا رکن تھا اور القاعدہ کے بیرونی آپریشنز کا انچارج سمجھا جاتا تھا۔ گیانا کی شہریت اختیار کرلینے والے الشکری پر نیویارک کی عدالت نے 2010 میں امریکہ اور برطانیہ میں دہشت گردی کے منصوبے میں فردِ جرم عائد کی تھی۔الشکری کے مارے جانے سے بھی جنرل راحیل شریف کا وہ عزم صاف جھلکتا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان کی سرزمین سے تمام دہشت گردوں کو ختم کیا جائے گا اور کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا۔
خزاں میں بہار کا تاثر دینے والا دوسرا اہم کام چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی تھی۔ یہ کام حکومت اور اپوزیشن نے خود کیا یا سپریم کورٹ کی تنبیہات سے ڈر کر کیا، اچھی بات تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق جج اور شریعت کورٹ کے چیف جسٹس سردارمحمد رضا خان اب اس عہدے پر متمکن ہوچکے ہیں۔ اپنے حلف کے روز میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ غیر رسمی بات چیت میں چیف الیکشن کمشنر سردارمحمد رضا خان نے اپنے نئے ادارے کے وقار کو بحال کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے ہر شخصیت پر اعتراضات اٹھنے کے بعد پہلے پہل سردار رضا خان بھی یہ عہدہ لینے سے گریزاں تھے، تاہم اُنہوں نے یہ عہدہ لے کر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی بہتری کے لیے ہرممکن کوشش کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے تو ان کی کامیابی کیلئے دعا کی جانی چاہیے۔ اگرچہ جسٹس سردار رضا خان پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس ناصر الملک اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت اعلیٰ عدلیہ کے اُن ججوں میں شامل تھے جنھوں نے 26 جنوری سنہ 2000 میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے پہلے عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف لیا تھا تاہم انہوں نے تین نومبر دو ہزار سات کی ایمرجنسی کے بعد مشرف کے پی سی او کا حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔
قارئین کرام!!موسمیاتی تبدیلیاں اگر زور پکڑ رہی ہیں تو سیاسی تبدیلیاں بھی موسمیاتی تبدیلیوں کا رنگ پکڑرہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف کے کامیاب دورے، کامیاب آپریشن ضربِ عضب اور نئے چیف الیکشن کمشنر کی کامیابی سے تعیناتی کے بعد اِس وقت ملک میں سیاسی موسم خزاں کا نہیں بلکہ بہار کا موسم دکھائی دیتا ہے، لیکن اس کے باجود اب بھی کچھ لوگ اے اور بی کے بعد سی، ڈی اور ای پلانوں کا ڈراوا دے کر پت جھڑ کا موسم ہی برقرار رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ لیکن جہاں قدم قدم پر خزاں میں بہار ڈیرے ڈال رہی ہوا، وہاں کیاخزاں اپنے قدم جماسکے گی؟ کیا تحریک انصاف کا سی پلان کامیاب ہوگا؟ کیا تحریک انصاف اپنے سی پلان کے مطابق بڑے صنعتی شہر بند کرپائے گی؟ کیا تحریک انصاف کی کال پر آج فیصل آباد بند ہوپائے گا؟خزاں بہار کی پھوٹتی کونپلوں کو پروان چڑھنا ہے یا موسمیاتی تبدیلیوں نے اپنا اثر زای¿ل کرتے ہوی¿ے خزاں میں محض خزاں ہی رہنے دینے ہے؟پاکستان نے بند ہونا ہے یا اِس کا پہیہ جیسے تیسے چلتے رہنا ہے؟ اس کا فیصلہ آج فیصل آباد میں ہوجائے گا۔
فیصلہ آج فیصل آباد میں ہوجائے گا
Dec 08, 2014