جناب ذوالفقار علی بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے آخری دَور میں جب مہنگائی بہت بڑھ گئی تو پُورے مُلک میں بہت احتجاج ہونے لگا۔ بھٹو صاحب کہا کرتے تھے کہ ”فلا ں فلاں مُلک میں پاکستان کی نسبت زیادہ مہنگائی ہے۔“ ایک بار لاہور کے جلسہ¿ عام میں ایک نوجوان نے جنابِ بھٹو کو جُوتا دِکھایا تو انہوں نے کہا ”ہاں ہاں! مجھے معلوم ہے جُوتے بھی بہت مہنگے ہو گئے ہیں۔“ دُنیا کے کئی مُلکوں میں حکمرانوں اورحکومت سے باہر سیاستدانوں کی طرف اُن کو نا پسند کرنے والوں کی جانب سے جُوتے پھینکنے کی وارداتیں ہو چکی ہیں۔
رسمِ جُوتا دِکھائی؟
مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا جب اچانک سڑکوں پر آمنا سامنا ہو جائے تو وہ گُتھم گُتھا ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف نعرے بھی لگاتے ہیں لیکن 6 دسمبر کو لاہور میں الیکشن کمِشن کے دفتر کے باہر جب پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنوں کا آمنا سامنا ہُوا تو انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگانے اور گُتھم گُتھا ہونے کی روایت کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ ”رسمِ جُوتا دِکھائی“ بھی ایجاد کر لی۔ بیاہ شادِیوں پر سالیاں دُلہا میاں کا جُوتا چھُپا کر رسمِ جُوتا چھپائی ادا کرتی اور اُس سے نذرانہ وصول کرتی ہیں لیکن یہاں تو دونوں طرف ”رقیبانِ خُوبرُو“ تھے۔ لین دین کا معاملہ کیا کرتے؟ اِس طرح کے سیاسی مظاہروں میں بے روز گار نوجوان (یعنی جُوتِیاں چٹخائے پھرنے والے لوگ) بھی ہوتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ شاعر نے کِس مُوڈ میں کہا تھا کہ
”آپ کے کُوچے میں دُشمن رات دِن
جُوتیاں پھرتے ہیں چٹخائے ہُوئے“
”ضرب اُلمِثل جُوتیوں میں دال بٹنا“ کا مطلب ہے آپس میں لڑائی ہونا۔ جب دو مخالف جماعتوں میں لڑائی ہوتو جُوتیوں میں دال کے بجائے کیا بٹتا ہے؟ کسی سیانے سے پُوچھنا پڑے گا۔
مُلّاتین پیازے کی لات
”اشکوں کی برسات والے مُلّا تِین پیازہ“ اینکر پرسنز کے ”مولانا اِدھر علی اُدھر“ بن گئے ہیں۔ اپنے تازہ ترین بیان میں فرماتے ہیں کہ ”2007ءمیں جب ملعُون سلمان رُشدی کو "Sir" کا خطاب دِیا گیا تو میں نے قومی اسمبلی اور وزارت کو لات مار دی تھی۔“ عجیب منطق ہے۔ اِسے کہتے ہیں کہ ”کُمہار پر بس نہ چلے تو گدھی کے کان اینٹھے۔“ ملعُون رُشدی کو "Sir" کا خطاب برطانوی حکومت نے دِیا تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مُلّا تِین پیازہ صاحب لندن جا کر ملکہ¿ برطانیہ الزبتھ دوم کے محل، ہاﺅس آف کامنز، ہاﺅس آف لارڈز کو لات مارتے یا ملعُون سلمان رُشدی کی پُشت پر لات مار کر اپنے ”فن کا مظاہرہ“ کرتے۔ ”پہلوانِ سُخن“ حضرت ناسخ سیفی نے کہا تھا
”ہاتھ اُٹھایا وصل میں مجھ پر چلائی لات بھی
رفتہ رفتہ اب نکالے تُم نے مارے ہاتھ پاﺅں“
مُلّا تِین پیازہ صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے پہلے قومی اسمبلی کو لات ماری یا وزارت کو؟ اور کون سی لات ماری؟ دائِیں یا بائِیں؟ قومی اسمبلی اور وزارت کا تو خیر کچھ نہیں بِگڑا ہوگا لیکن موصوف کی لات یقینا زخمی ہوئی گئی ہوگی؟
محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتل؟
بعض قومی اخبارات میں شائع ہونے والی ایک سِنگل کالمی خبر کے مطابق ”محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کیس کی سماعت کرنے والی راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج جناب پرویز اسماعیل جوئیہ نے سرکاری وکیل اور کچھ گواہوں کی عدم حاضری کے باعث کیس کی سماعت 13 دسمبر تک ملتوی کر دی ہے۔“ اِس مقدمہ میں محترمہ کے شوہر جناب آصف زرداری اور اُن کے بیٹے بلاول مُدّعی نہیں ہیں۔ جنابِ زرداری 5 سال تک پاکستان کے صدر رہے لیکن انہوں نے ”دُخترِ مشرق“ کے قاتلوں کو سزا دِلوانے میں کوئی دِلچسپی نہیں لی۔ 27 دسمبر 2012 ءکو محترمہ کی برسی کے موقع پر گڑھی خُدا بخش کے جلسہ¿ عام میں (اُس وقت کے چیف جسٹس) جناب افتخار محمد چودھری کو للکارتے ہُوئے کہا تھا ”میں پاکستان کے سب سے بڑے قاضی سے پُوچھتا ہوں کہ قاضی صاحب! میری رانی ماں اور پاکستان کی بیٹی بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو سزا نہیں دی گئی؟“
4 مئی 2013 ءکو لندن میں ”نوائے وقت“ میں جناب خالد لودھی کے حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ”لندن میں (ان دِنوں) پاکستان کے ہائی کمشنر جناب واجد الحسن نے محترمہ کے قتل کے دوسرے دِن ہی کہہ دِیا تھا کہ ”مَیں 110 فی صد رحمن ملک کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔“ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے "Talented Cousin" جناب ممتاز بھٹو کا فوری ردِ عمل یہ تھا کہ ”سیدھا سادہ فوجداری کیس ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اِس کا فائدہ کِس کِس کو ہُوا ہے۔“ محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل کیس ”دیوانی مقدمہ بن گیا ہے۔ 11 مئی کے عام انتخابات سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے ممتاز رہنما بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن کہا کرتے تھے کہ ”پیپلز پارٹی کے کارکن ہمارے گریبان پکڑیں گے اور پُوچھیں گے کہ ہم نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو سزا کِیوں نہیں دِلوائی؟ جناب اعتزاز احسن نے دراصل عام انتخابات میں اپنی پارٹی کے ہارنے کی پیش گوئی کردی تھی۔
القاعدہ کا ”شہید“ اور طالبان کا ”غازی؟“
پاک فوج کے جوانوں نے شمالی وزیرستان سے روپوش ہو کر شن ورسک میں واقع مقامی کمپاﺅنڈ میں چھُپے ہُوئے القاعدہ کمانڈر ”عدنان الشکری“ کو ہلاک کردِیا ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ ”پاک فوج کِسی بھی دہشت گرد کو نہیں چھوڑے گی۔ اُدھرافغانستان کی حکومت نے کالعدم تحریک کے طالبان پاکستان کے سرغنہ کمانڈر لطیف محسود اور اس کے دو ساتھیوں کو حکومتِ پاکستان کے حوالے کر دِیا ہے۔ حیرت ہے کہ دُنیا بھر میں دہشت گردی کو فروغ دینے والے اُسامہ بِن لادن کو ”سیّد الشُہدائ“ اور حکیم اللہ محسود کو ”شہید“ قرار دینے والوں نے فی الحال اِس بارے میں کوئی بیان نہیں دِیاکہ کیا عدنان الشکری اور لطیف محسود ”شہید“ اور ”غازی“ ہیں یا نہیں؟