سیاسی سانپ اور معاشی اژدھے!

قارئین! یہ تو سنا تھا کہ خاوند بیوی کے سرھانے کا سانپ ہوتا ہے اور یہ بھی سنا تھا کہ فلاں شخص کو سانپ سونگھ گیا مگر پتہ چلا کہ معاشرے کے ہر طبقہ میں مختلف انواع کے سانپ پائے جاتے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے لیکر ہماری قومی سیاست میں ہمارے سیاست دانوں نے ہمیشہ قومی مفادات کو ڈسا، ماسوائے حضرت قائداعظم محمد علی جناح اور چند باضمیر سیاست دانوں کے، باقی ماندہ جس جس نے بھی اقتدار کے سنگھاسن پر جگہ پائی اس کی حتی الوسع کوشش رہی کہ وہ امیر المومنین بنے اور اس ملک کو اپنے اور اپنے خاندان کی جاگیربنا لے۔ 1980ء کے بعد گذشتہ پینتیس سالوں کے دوران اس ملک کو لوٹنے والوں نے اس ملک کے اثاثوں پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں سے ریاست کو قرضہ دلواتے رہے اور پھر اسی قرضے کو ہر جائز اور ناجائز طریقے سے اپنے ملکی اور غیر ملکی اکائونٹس کو بھرتے رہے۔ قارئین!آج میری باتوں سے چاہے آپ سو فیصد یقین نہ کریں مگر جس روز موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرتے ہوئے یا قبل از وقت اپنے پائوں پر کلہاڑی مارتے ہوئے تمام ہو گی تو پھر جرائم کے جو پہاڑ آپ کو نظر آئیں گے وہ ناقابل یقین ہونگے۔ پچھلے آٹھ سالوں کے دوران مجموعی قومی قرضہ بارہ ارب ڈالر سے ستر ارب کی حد کو چھونے لگا ہے اور اس دوران سابق صدر ِ مملکت آصف علی زرداری کے ذاتی اثاثے چند سو ملین ڈالر سے بڑھ کر ساٹھ ار ب ڈالر ہو چکے ہیں جبکہ انکے قریبی رفقائ، وزرائ، بیوروکریٹس اور معاشی پارٹنرز نے کھربوں روپے کے اثاثے بنائے۔ سابق وزیر شرجیل میمن کے گھر کی بیسمنٹ سے چھ ارب روپے کی ناجائز کرنسی برآمد ہوئی۔
پچیس سال پہلے سوئی گیس کے محکمے میں بطور میٹر ریڈر بھرتی ہونے والے سابق وفاقی وزیر اور اپوزیشن رہنما خورشید شاہ کے مجموعی اثاثوں کی مالیت دو سو ارب سے زائد ہے اور ان تمام شخصیات کا لوٹا ہوا سرمایہ ناجانے کتنی ایان علی انکے پانچ سالہ دورِ حکومت میں ملک سے باہر منتقل کرتی رہیں جبکہ سابق صدر کی بہن فریال تالپور جو اس لوٹے ہوئے دھن پر سانپ بن کر بیٹھی ہیں اور موصوفہ کی اربوں روپے سے بھری لانچ چند ماہ پہلے کسٹم حکام نے دوبئی کے سمندری راستے سے برآمد کی۔ اسی طرح 1977ء تک صرف چند لوہے کی بھٹیوں کے مالک خاندان جس کو سابق صدر مرحوم ضیاء الحق اور گورنر غلام جیلانی(مرحوم) نے بھٹو دشمنی کے عوض اقتدار کے ایوانوں میں بلایا تھاآج وہ جدہ، الریاض، بھارت، کینیا، اور انگلینڈ میں اربوں ڈالر مالیت کے اثاثوں ، شوگر ملز، سٹیل ملز، چکن اور میٹ انڈسٹری، کھاد اور ادویات سمیت سینکڑوں ملوں اور کارخانوں کے مالک ہیں۔ میری ایک تحقیق کیمطابق پاکستان کا موجودہ حکمران طبقہ جس کی برطانیہ میں سرمایہ کاری ہے اور اس وقت وہ برطانیہ کاگیارہواں امیر ترین خاندان تصور کیا جاتا ہے اور اپنے اثاثوں اور اکائونٹس کو بھرنے کیلئے موصوف وزیراعظم نے چند ماہ بیشتر انڈیا سٹیل انڈسٹری کے آئیکون مسٹرسجن جنڈال کیساتھ خفیہ ملاقاتیں کیں جو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی موجودگی میں پروان چڑھتی رہیں۔اس طرح یہ سیاسی سانپ اور معاشی اژدھے عوام کے نصیبوں پر پھن پھیلائے بیٹھے ہیں۔
قارئین! گذشتہ روز مشہور صحافی ابصار عالم کو چیئرمین پیمبرا تعینات کر دیا گیا جبکہ اس سے پہلے مشہور صحافی اور اینکرپرسن محمد مالک کو چیئرمین پی ٹی وی لگایاگیا اور اس سے بھی پہلے مشہور کالم نگار عرفان صدیقی صاحب کو وزیراعظم کا خصوصی مشیر مقرر کیا گیا جو بلحاظ عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہے اور پھر میرے پیارے دوست اور مشہور اینکرافتخار احمد صاحب کو وائس چیئرمین پی ایچ اے مقرر کیا گیا جبکہ صحافتی بازار سے کئی اور پردہ نشینوں کو بھی خصوصی مراعات سے فیضیاب کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 17جون 2014ء کو ماڈل ٹائون سانحہ کے بعد موجودہ حکمران جو بس لبِ جاں تھے وہ اس وقت اس قدر مضبوط ہو چکے ہیں کہ وہ گذشتہ تین چار مہینوں کے دوران ہونیوالے ضمنی انتخابات اور ملک گیر بلدیاتی انتخابات میں اسّی فیصد کامیابی سمیٹتے ہیں، جس سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ سانحۂ ماڈل ٹائون اور اسکے بعد ہونیوالے چار ماہ کے دھرنے نے حکومت کیلئے انرجی ڈرنک کا کام کیا ہے۔
افواہ گرم ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے گذشتہ دورئہ امریکہ کو ناکام بنانے کیلئے نہ صرف ایم کیو ایم سے صلح کی گئی بلکہ ان کو غیر مشروط اسمبلیوں میں واپس لا کر ایک طرف آئین کی د ھجیاں بکھیری گئیں اور دوسری طرف فوج اور رینجرز کو یہ پیغام دیا گیا کہ اس ملک میں طاقت کا اختیار صرف ان لوگوں کے پاس ہے جو پوری پارلیمنٹ اور پوری عدلیہ خریدنے کی سکت رکھتے ہوں اور اب اپنی ہی فوج کو مزید کمزور کرنے کیلئے آئے روز رینجرز کو آپریشن کراچی میں توسیع دینے کیلئے سندھ کے پچاسی سالہ سنیاسی بابا کی چِٹ کا انتظار کروایا جاتا ہے۔ آج مجھے حضرت علامہ اقبال کے یہ شعر یاد آ رہے ہیں۔
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو‘ دیتے ہیں تعلیم ِمساوات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات!
تو قادر و عادل ہے‘ مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
جھورا جہاز آج تین سوال میرے سامنے رکھ کر چلا گیا ۔میرے پاس شاید اسکے سوالوں کا جواب نہیں۔ -1 اس ملک کا نام بتائیں جہاں ایک قاتل کو وزیرقانون بنا دیا جائے۔ -2 اپنے ہی ملک کی افواج کو گالیاں دینے والے شخص کو وزیر دفاع بنا دیا جائے۔ -3منی لانڈرنگ کا جرم قبول کرتے ہوئے اقرارنامے پر دستخط کرنے والے کو وزیر خزانہ بنا دیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن