خواتین کا ملک کی ترقی میں کردار

پاکستان کا آئین تمام شہریوں کو قانون کی نظر میں برابری کا حق دیتا ہے۔ جس کی بنیاد پر کوئی امتیازی قانون نہیں ہو گا۔ عورتوں اور بچوں کا تحفظ مملکت کی ذمہ داری ہے۔بین الاقوامی انسانی حقوق کے تمام معاہدوں پر سیڈا کو ایک اہم حیثیت حاصل ہے۔ کیونکہ یہ کنونشن دنیا کی آدھی آبادی یعنی عورتوں کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کا کنونشن ہے۔ اس کے (GRAP) Gender Reform Action Plan جس کا پاکستان Signatory ہے پھر ملینیم ڈویلپمنٹ گول (MDGs) ان تمام Universal Declaration کا مطلب ہے کہ پاکستان میں عورتیں برابر کے حقوق اور عزت کی حق دار ہوں گی۔ ان کی صحت‘ تعلیم‘ معاشی‘ معاشرتی تحفظ دینا اسٹیٹ کا فرض ہو گا۔ پاکستان کا آئین بھی عورتوں کو ان کے حقوق جو انسانی حقوق ہیں دینے کی گارنٹی دیتا ہے۔ مگر پھر بھی پدر سری نظام سے پاکستانی معاشرہ جڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے حکومتی افراد بیوروکریٹ‘ پولیس‘ جج‘ سیاستدان صنفی مسائل کے حوالے سے باشعور نہیں ہیں۔جاگیردارانہ قبائلی کلچر اور انتہا پسند مذہبی سوچ اور فرسودہ رسم رواج ابھی تک مضبوط ہیں۔ جس کے نتیجہ میں 21 ویں صدی میں لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کیلئے لڑکیوں کے سکول کو تباہ کئے جا رہے ہیں۔ ہمیں اس سوچ سے چھٹکارا پانے کیلئے نئے فکری انقلاب کی ضرورت ہے۔ عورتوں اور لڑکیوں کو عدم تحفظ کا احساس ہو رہا ہے اور اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ جیسے گھر سے باہر جنسی خوف و ہراس‘ سڑکوں‘ بسوں میں عورتوں پر گندے فقرے بازی بلکہ اب تو اسمبلی کے ایوانوں میں بھی خاتون ممبروں کو فقرے بازی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملازمت کی جگہ پر جنسی طور پر ہراساں کرنا‘ عورتوں کی سرعام بے حرمتی اور خاندانی دشمنی کا انتقام لینے کیلئے عورتوں سے زیادتی کرنا تشدد کرنا۔ رسم و رواج کا سہارا لے کر عورتوں کو قتل کرنا مثلاً کاروکاری اور سیاہ کاری کرنا‘ خاندان کے مردوں کے کئے ہوئے جرم کی سزا ان کے خاندان کو لڑکیوں کو ’’ونی‘‘ کر دینا۔ کم عمر کی بچیوں کی شادی بڑی عمر کے مرد سے کرنا۔ غرض سماجی تشدد کی یہ مختلف شکلیں پورے معاشرے کی سطح پر عورتوں اور لڑکیوں کو خوف و ہراس میں مبتلا رکھتی ہیں۔عورتوں کے خاندان والے ان کے گھروں سے باہر نکالنے سے‘ خصوصاً کسی دوسرے شہر میں تعلیم یا نوکری کرنے کیلئے بھیجنے سے گھبراتے ہیں۔ عام طور پر وہ صحت اور تعلیم کی بنیادی سہلوتوں تک رسائی سے بھی محروم ہو جاتی ہیں۔ ملازمت اور تربیت کے مواقع پر بھی اسی پابندی کی وجہ سے کھو بیٹھتی ہیں۔ معاشرے کی سرگرمیوں میں آزادی سے حصہ نہیں لے سکتیں اور بہت سا اہم تجربہ بھی حاصل نہیں کر پاتی ہیں۔ یہ کمی آگے جا کر ان کی ترقی میں حائل ہوتی ہے‘ مثلاً نوکری کے بہت سے مواقع کھو کر یا نوکری میں ترقی کے مواقع ان کو نہیں ملتے کیونکہ مردوں کے برعکس ان کا تجربہ زیادہ نہیں ہوتا۔
ان ہوم بیسڈ ورکرز میں عمر کی کوئی قید نہیں۔ ان میں چھوٹی عمر کی بچیاں اور بوڑھی عورتیں بھی شامل ہیں ان کے کام کرنے کے اوقات مقرر نہیںہے۔ روزگار کی صورت حال غیر یقینی ہوتی ہے۔ کام کے معاوضے کا تعین بھی ٹھیکیدار کی مرضی سے ہوتا ہے جو اتنا کم ہے کہ یہ معاوضہ غیر انسانی محسوس ہوتا ہے۔ایک سروے کے مطابق سائوتھ ایشیاء میں 5 کروڑ ے زیادہ خواتین گھروں میں مصروف عمل ہیں۔ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ عورتیں ہیں جو اپنے خاندان کا پیٹ پالتی ہیں۔اگر ان خواتین کو منظم کرکے ایک مربوط نیٹ ورک سے منسلک کر دیا جائے، ان کے معاوضے کو بڑھایا جائے تو تقریاً ایک کروڑ خاندان معاشی خود کفالت اور خوشحالی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں چونکہ ان عورتوں کو مزدور قوانین کا تحفظ حاصل نہیں ہے، اس لیے مڈل مین استحصال کی علامت بن کر انہیں ان کی محنت کے اصل ثمرات سے محروم کر دیتا ہے۔ اگر ہم ملک میں غربت کو کم کرنا چاہتے ہیں اور حقیقی معنوں میں سماجی و اقتصادی ترقی کا عمل وقوع پذیر ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان عورتوں یعنی ہوم بیسڈ ورکرز کے بارے میں ایک قومی پالیسی تشکیل دینا ہو گی جس کے تحت ان عورتوں کو بحیثیت رجسٹرڈ ورکر کے تسلیم کیا جائے۔ معاشی حالت کی بہتری کے لیے انہیں قرضوں کی فراہمی آسان بنائی جائے، خام مال اور منڈی تک ان کی رسائی کو ممکن بنایا جائے، ایمپلائمنٹ سیکورٹی اور انشورنس کے ذریعے انہیں بیماری، زچگی اور چائلڈ کیئر کا تحفظ دیا جائے، غیر رسمی شعبوں جیسے گھریلو ملازمت یا چھابڑی لگانا اور کھیت میں کام کرنے وغیرہ کو ایک نظام میں پرو کر باقاعدہ رجسٹر کیا جائے تو ہم ضرور غربت کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ILO کے کنونشن 177 کی توثیق کریں۔بے شک پچھلی حکومت کے دور میں عورتوں کو ترقی کے بہت سے مواقع ملے لوکل باڈی میں عورتوں کو 33 فیصد، صوبائی قومی اور سینٹ میں پہلی دفعہ 17 فیصد نمائندگی دے کر سیاسی بااختیاری دی گئی۔ GRAP جینڈر ریفارم پروگرام کے ذریعہ خواتین کو ہر سطح پر برابر لانے کا کام شروع ہے۔ قانونی تحفظ کے لیے قانون سازی کی گئی۔ صحت اور روزگار کے لیے بہت کام ہوئے مگر پاکستانی خواتین عالمی سطح اور جنوبی ایشیاء کے مقابلے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔ اس کی وجہ معاشرتی رویہ ہے جو خواتین کے کام کے صلہ اور حیثیت کو کم کرتے ہیں عام طور پر خواتین کے کام کو گِنا ہی نہیں جاتا۔ دیہات میں خواتین مردوں کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ کام کرتی ہیں۔ اسکے علاوہ شہروں میں بے شمار خواتین غیر روایتی شعبوں میں کام کرتی ہیں مگر انکے کام کو قومی آمدنی میں شمار نہیں کیا جاتا۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ’’کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اس قوم کے مردوں کے شانہ بشانہ عورتیں بھی ملک ترقی میں حصہ نہ لیں‘‘۔
عورت کو حق دینا دراصل سماج کو حق دینا ہے جوں جوں عورت اپنے حقوق حاصل کرتی جائے گی اسی رفتار سے ملک ترقی کرے گا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...