واشنگٹن (بی بی سی، آن لائن، این این آئی، آئی این پی) امریکی صدر بارک اوباما نے ریاست کیلیفورنیا کے علاقے سان برنارڈینو میں فائرنگ کے حالیہ واقعے کو ’دہشت گردی کی واردات‘ قرار دیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو امریکہ اور اسلام کی جنگ کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس سے براہ راست خطاب میں امریکی صدر کا کہنا تھا آزادی خوف سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ اپنی تقریر میں صدر اوباما نے کہا اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملا کیلیفورنیا کے حملہ آور’ کسی غیر ملکی شدت پسند تنظیم کے اشارے پر کام کر رہے تھے۔ اوباما کا کہنا تھا شدت پسند امریکی معاشرے میں موجود امتیاز کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا امریکہ دہشت گردی کے اس بڑھتے ہوئے خطرے پر قابو پا لے گا لیکن امریکیوں کو ’اس جنگ کو اسلام اور امریکہ کے درمیان جنگ نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ ہی ایک دوسرے کے خلاف ہونا چاہیے۔امریکی صدر نے کہا ہم دہشت گردی کو شکست دینا چاہتے ہیں تو ہمیں مسلم کمیونیٹیز کو اپنے مضبوط ترین اتحادیوں کے طور پر ساتھ رکھنا ہوگا نہ کہ ہم انھیں شک اور نفرت کا شکار بنا کر دور دھکیل دیں۔ان کا کہنا تھا امریکی عوام کا اپنے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف ہو جانا ہی وہ اصل چیز ہے جو دولتِ اسلامیہ کے شدت پسند چاہتے ہیں،انھوں نے کہا دولتِ اسلامیہ، اسلام کی ترجمان نہیں اور امریکہ اس شدت پسند تنظیم سے لڑنے کے لیے اپنی ہر ممکن طاقت استعمال کرے گا۔ انھوں نے دولتِ اسلامیہ کو ’قاتل اور ٹھگ‘ گروہ کا نام دیا اور کہا دہشت گردی کا حقیقی خطرہ ہے لیکن ہم سب مل کر اس پر قابو پائیں گے۔تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے امریکہ میں بھی کئی اہم اقدامات کیے جانے چاہئیں۔صدر اوباما نے کہا امریکہ میں انتہاپسندی کی جانب مائل ہونے والے افراد کے لیے اسلحے کے حصول کو مشکل بنانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کانگریس پر زور دیا وہ کسی بھی ایسے فرد کے لیے اسلحے کی خریداری مشکل بنا دے جس کا نام ’نو فلائی لسٹ‘ میں شامل ہو۔امریکی صدر نے بتایا انھوں نے محکمہ خارجہ اور ہوم لینڈ سکیورٹی کے محکمے کو بغیر ویزے کے امریکہ آنے والے افراد کی سکریننگ کا عمل سخت کرنے کے احکامات بھی دیئے ہیں۔ یہ اوباما کے دورِ صدارت میں صرف تیسرا موقع تھا انھوں نیاوول آفس سے قوم سے خطاب کیا۔ اوول آفس سے امریکی صدر کا خطاب انتہائی مواقع پر ہی ہوتا ہے۔ آن لائن کے مطابق امریکہ نے داعش کیخلاف اپنی نئی حکمت عملی کا اعلان کردیا ،اب ویزہ ویور پر نظرثانی ، ہوائی اڈوں پر اضافی سکریننگ اورداعش کے ٹھکانوں پرپوری قوت سے حملے کئے جائیں گے امریکی صدر بارک اوباما نے کہا داعش ٹھگوں اور لٹیروں کا ٹولہ ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ،دنیا میں کثیر تعداد میں مسلمان آبادی معتدل خیالات کی مالک ہے جنہوں نے شدید الفاظ میں داعش کے حملوں کی مذمت کی، ہمیںداعش کے ٹھکانوں پر پوری قوت سے حملے کرنا ہوں گے ،شدت پسندی سرطان کی مانند اور دہشت گردی کا خطرہ ایک حقیقت ہے ،امریکی فوج نے بیرون ملک بھی دہشت گردی کے نیٹ ورکس کا پیچھا جاری رکھا ہوا ہے۔اْنھوں نے کہا امریکہ اس شدت پسند گروہ کو شکست دے کر رہے گا۔اْنھوں نے واضح کیا داعش کے خلاف لڑائی اسلام کے ساتھ جنگ نہیں۔ صدر نے کہا شدت پسندی سرطان کی مانند ہے، جبکہ دہشت گردی کا خطرہ ایک حقیقت ہے۔صدر اوباما نے کیلی فورنیا شوٹنگ کے واقعے کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے ایک نئی موثر حکمت عملی کا اعلان کیا۔ صدر نے سان برنارڈینو قتل عام کو کھلی دہشت گردی قرار دیا۔اعلان کردہ حکمت عملی میں ویزا ویور پروگرام کو ختم کرنا ہوائی اڈوں پر اضافی سکریننگ کا آغاز اور داعش کے محفوظ ٹھکانوں پر زوردار حملے جاری رکھنا چاہئے وہ جہاں کہیں بھی چھپے ہوئے ہوں ۔ ویزا ویور پروگرام پر نظر ثانی کے بارے میں صدر نے کہا اْنھوں نے محکمہ خارجہ اور محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کو احکامات جاری کر دیئے ہیں۔اْنھوں نے کہا کہ ماضی میں امریکی فوج اور انٹیلی جنس اداروں نے داعش اور دیگر دہشت گرد اور انتہا پسند گروپوں کے متعدد دہشت گرد منصوبوں کو ناکام بنایا ہے۔صدر نے امریکی کانگریس پر زور دیا گن کنٹرول کے حوالے سے فوری قانون سازی کا اقدام کیا جائے جس سے حملوں میں استعمال ہونے والے خطرناک نوعیت کے ہتھیاروں تک عام شہری کی رسائی باقی نہ رہے۔ صدر اوباما نے واضح کیا امریکی فوج کو کسی سرزمین پر پیر رکھنے کی ضرورت نہیں تاہم اْنھوں نے کہا کہ موثر اور زوردار فضائی کارروائیوں کے ذریعے متعین اہداف حاصل کیے جائیں گے۔ اْنھوں نے کہا داعش کا شدت پسند گروپ یہی چاہتا ہے کہ امریکی بری فوج کو الجھایا جائے۔ تاہم، دشمن کے عزائم کو خاک میں ملایا جائے گا۔صدر اوباما نے امریکی مسلمان برادری کی بہادری اور حب الوطنی کی تعریف کی جو امریکہ کی ترقی اور خوش حالی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں، انہوں نے کہا امریکی عوام مسلمانوں پر شک نہ کریں۔ آئی این پی کے مطابق امریکی صدر نے ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان برنارڈینو میں فائرنگ کے حالیہ واقعے کو دہشت گردی کی واردات قرار دیتے ہوئے کہا کہ کیلیفورنیا واقعہ کے بعد امریکی مسلمانوں کے خلاف مذہبی منافرت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، دہشت گردی کے خلاف جنگ کو امریکا اور اسلام کی جنگ کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے،داعش اسلام کے نمائندے نہیں، وہ قاتل ہیں،مسلمانوں کیساتھ تعصب ناقابل قبول ہے،تمام مذاہب کے ماننے والوں کااحترام کرنا ہوگا،مسلمانوں کے خلاف نھیں دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں جب تک مسلم ممالک اپنے گھروں سے شدت پسندی کا خاتمہ نہیں کردیتے اس وقت تک ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔