اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے کورٹ مارشل کے تحت سزا پانے والے 13 میں سے 10 فوجی اہلکاروں کا معاملہ لاہور ہائیکورٹ کو بھجواتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ کیونکہ ہائیکورٹ کو ، کورٹ ماشل کے خلاف نظرثانی کا آئینی اختےار حاصل ہے اسلئے وہ کیس کی سماعت کرتے ہوئے میرٹ پر فیصلہ دے۔ 3 مقدمات کی سماعت سپریم کورٹ میں جاری رہیگی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے موقف اختےار کےا کہ لاہور ہائیکورٹ نے آبزرویشن دی ہے چونکہ فوج کے اندر ٹرائل کا اپنا نظام موجود ہے اسلئے ہائیکورٹ کے پاس کورٹ مارشل کیخلاف اپیلوں کی سماعت کا اختیار نہیں ہے، آئین کی 53 شقوں میں ہائیکورٹس کو فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر اپیلوں کی سماعت سے روکا گیا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ 1973ءمیں جسٹس محمود الرحمٰن نے ضیا الرحمٰن کیس میں قرار دیا کہ کورٹ مارشل کی کارروائی کے بعد سنائی گئی سزا پر اپیل کی سماعت کا اختیار ہائیکورٹ کے پاس ہے اور ہائیکورٹ فوجیوں کی ملازمت کے حوالے سے معاملات بھی دیکھ سکتی ہے کیا آپ محمود الرحمٰن کی طرف سے دیئے گئے عدالتی فیصلہ پر نظر ثانی چاہتے ہیں جو آج بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے ،جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اگر کسی فوجی کو نوکری سے برخاست کر دیا جائے تو وہ کہاں جائیگا۔ عدالت نے قرار دیا کہ بدنیتی ، اختیارات سے تجاوز اور موقف نہ سنے جانے کی بنا پر ہائیکورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ کورٹ مارشل کی کارروائی کے خلاف اپیل کی سماعت کر ے۔
سپریم کورٹ / کورٹ مارشل