کوئی مانے یا نہ مانے اس وقت جہاں جہاں بھی جمہوریت ہے اور جہاں جہاں جمہوریت نہیں ہے جمہوریت کا سیاسی استحصال ہو رہا ہے۔ یہ نظام اپنے محاسن سے زیادہ اپنے عیوب‘ لوگوں کی فلاح سے زیادہ ان کی بدحالی۔ انکے حقوق کی حفاظت کی بجائے ان کے حقوق کے اتلاف‘ ان کو بااصول بنانے کی بجائے انکو بے اصول بنانے اور اس نظام کے ذریعے انسانیت کی بہتری کی بجائے اسکی بربادی کو اپنی پہچان بنا چکا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس نظام کو اس کی روح کے مطابق کوئی بھی قبول کرنے کو تیار نہیں اسے جزوی طور پر قبول کرنیوالے جمہوریت کے چیمپئن بن رہے ہیں۔ اسکی دوسری کمزوری یہ ہے کہ اس میں احتساب کرنے کا عمل مفلوج اور ناکارہ بنا دیا گیا ہے اور احتساب دراصل سیاسی انتقام کا نام رہ گیا ہے۔ جہاں مک مکا ہو جائے‘ اس نظام کی خرابیاں اتنی منہ زور ہو جاتی ہیں کہ ان کو لگام دینے کا تصور بھی پاگل پن لگتا ہے۔ اس نظام سے فائدہ اٹھانے والے اس نظام کو جاری و ساری رکھنے پر اپنی ساری توانائیاں لگا دیتے ہیں اور اس سے محروم ہونےوالے دعا اور دوا کے ذریعے اس نظام کو لپیٹنے پر ساری دانش کو فوکس کر دیتے ہیں۔ اس نظام کی جس خرابی کا اقبال جیسے فلاسفر نے یہ کہہ کر تعارف کرایا تھا....
جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اور زیادہ ذاتی اور دانش و خرد سے لوگوں کی رہنمائی کرنیوالوں کو اس نظام کے ہلکا بلکہ اسے ہلکا کر کے پیش کرنے کا کوئی حل نکالنے یا کوئی معقول بندوبست کرنے کی جس سوچ کو پروان چڑھانے کی بات کی تھی اس طرف کسی نے توجہ نہ دی اور اگر توجہ دی تو وہ کوئی کارآمد نتیجہ برآمد نہ کر سکی اور بندوں کو گننے کو ہی جمہوریت سمجھا گیا۔ اس بظاہر چھوٹی سی خرابی نے بہت بڑی بڑی خرابیوں کو جنم دیا اور آنےوالا وقت اس حوالے سے زیادہ خوفناک اور خطرناک دکھائی دیتا ہے ترجیحاً معاشروں سے امن و سلامتی چھین کر ان میں بدامنی ، لاقانونیت اور من مانی کیلئے ایسے توانا بیج بو رہا ہے۔ جن کی فصل بوائی کیساتھ ہی کٹائی کے مرحلے تک پہنچ کر اپنی حیثیت و اہمیت کا موثر ابلاغ کراتی دکھائی دیتی ہے۔ تشدد کا پرچار کرنےوالے اور عملاً تشدد و بربریت میں ملوث ہونےوالے اس جمہوری نظام کی بدولت حکومتیں سنبھال چکے ہیں اور سنبھال رہے ہیں۔ حکمران بن کر ان کی سوچ میں معقولیت آنے کی بجائے تشدد کا عنصر زیادہ نمایاں ہوتا ہے اور نامعقولیت آرڈر آف دی ڈے بن جاتی ہے۔
بھارتی وزیراعظم مودی نے گجرات میں مسلمانوں کا جو قتل عام کیا اس پر انکی دہشت گرد جماعت کو پورے ملک میں حکومت کرنے اور اپنی تشدد کی پالیسی جاری رکھنے کا سرٹیفیکیٹ مل گیا۔ نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ کے پرتشدد اور ایک تسلسل سے بیانات جو ان کی پالیسی کا درجہ اختیار کر گئے انکی جیت میں نمایاں سمجھے گئے اب اگر صدر ٹرمپ ان سے بیک آﺅٹ بھی کرنا چاہیں تو وہ عام نارمل آدمی کی سطح پر پھر بھی نہیں آئینگے۔ انکے بیانات سے امریکہ میں من چلوں کیلئے بیہودگی اور دست درازی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔یہ جمہوریت جو انسانی حقوق کا ستیاناس کر چکی ہے دن بدن پر تشدد ہوتی جائیگی۔ احتساب کی عدم موجودگی میں لوٹ مار کرنے والے زیادہ آزادی سے اپنا یہ دھندا کر سکیں گے۔
پاکستان میں پیپلز پارٹی کی ساری کرپشن کو نواز حکومت نے جس طرح عملاً معاف کر دیا ہے اور نواز شریف کی حکومت کو یہ کام کرنے کیلئے پیپلز پارٹی نے جس طرح کھلی چھٹی دی ہے اس کا نتیجہ ہے کہ ایک دن زور زور سے پاناما لیکس کے ذریعے نواز شریف گھر بھجوانے کے دعوے کرنیوالے چودھری اعتزاز احسن اپنی قیادت کے اشارے پر منظر سے ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
اگر ووٹ کے ذریعے حکومت بنانے کا نام ہی جمہوریت ہے یا جمہوریت صرف الیکشن کروانے اور اس میں دھونس، دھاندلی یا کسی بھی طور پر جیت جانے کے بعد حکومت سازی کے مرحلہ کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے تو ایک بات اہل عقل یہ ضرور ذہن میں رکھیں کہ ہٹلر اور مسولینی بھی ووٹ کی پیداوار تھے اور ووٹ کے ذریعے برسر اقتدار آ کر انہوں نے اپنی قوموں کو فاشسٹ نظام میںجکڑ کر کم و بیش تمام دنیا کو جنگ کی آگ میں دھکیل دیا تھا۔ امریکہ پوری دنیا میں اپنی طرز کی جمہوریت نافذ کرنے کیلئے انسانیت کیلئے جتنی بڑی آزمائش گزشتہ دو تین دھائیوں میں بن کر سامنے آیا ہے وہ اس نظام کو جاری و ساری رکھنے والوں کیلئے لمحہ فکریہ ضرور ہونا چاہئیے۔ جس بھارت کو ایک طویل عرصہ تک امریکہ دنیا کی تیسری بڑی جمہوریت کے طور پر پیش کرتا رہا اسکے سامنے یہ حقیقت کیوں نہ آئی اور اگر آئی تو اس سے مجرمانہ چشم پوشی بھی اس کو نہ بدل سکی کہ برصغیر کے امن اور سلامتی کو تہہ و بالا کرنے میں بھارت کے وزیراعظم نہرو کا جتنا حصہ ہے کسی دوسری شخصیت کو نہیں دیا جا سکا۔ کشمیر پر قبضہ بلکہ غاصبانہ قبضہ جمانے کے بعد امریکہ، برطانیہ، روس اور دوسری عالمی طاقتوں کے اس خطہ میں در آنے اور پاکستان و بھارت کے معاملات میں مداخلت کرنے کی شروعات یہیں سے ہوئیں امریکہ دنیا میں جمہوریت قائم کرنے کے دعویٰ کے ساتھ عراق اور لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجا چکا ہے۔ افغانستان میں اسکی پیدا کردہ جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ مصر اور ایران کے بعد اب شام اور سعودی عرب اسکے نشانے پر ہیں۔ کویت میں نوے کی دہائی میں فوجیں اتارنے کا اس کا تجربہ اسکے اپنے لئے بڑا سود مند رہا۔ اب ٹرمپ نے امریکہ کے ماضی کے سارے حکمرانوں کے فیصلوں میں انہیں مورد الزام ٹھہرانے اور شخصی تنقید کی زد میں لانے کی بجائے اسی نظام کو ایک سو اسی درجے پر بدلنے کا عزم کیا ہے گویا جمہوریت میں سارے فیصلے ملک و ملت کی تباہی و بربادی کے دھانے پر لانے کا موجب بنے وہ اس نظام کو فرسودہ کہہ کر میدان سیاست میں داخل ہوئے اور چھا گئے۔ وہ نظام کو بدلنے کو جمہوریت سمجھتے ہیں۔
نواز شریف اور زرداری نظام کو جاری رکھنے کو جمہوریت سمجھتے ہیں اگر کوئی نظام بدلنے کی بات کرے تو اسے اسٹیبلشمنٹ سے جوڑ دیتے ہیں اور بعض بھولے بھالے سیاستدان اس بہکاوے میں آ کر ”یاراں دا ای کم اے“ کی تھیوری پر سیاست شروع کر دیتے ہیں۔ سیاسی شریکوں اور کرپٹ سیاستدانوں کیلئے اس نظام میں جو سیاسی پناہ گاہیں بن چکی ہیں اور جس طرح جمہوریت کی ”سیاسی ایکسپلائٹیشن“ کے نہ ختم ہونے والے مواقع ملتے ہیں اسکے سبب حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اس نظام کو بچانے میں جت جاتے ہیں۔ ہر قسم کے سیاسی اختلاف کو فراموش کر کے اس نظام کو بدلنے والوں کیخلاف ایسے مثالی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اگر یہ ذاتی اور جماعتی مفاد کی بجائے قومی مفاد میں اتحاد ہو جائے تو ملک کی تقدیر بدل جائے۔ اس کیلئے جمہوریت کے ساتھ میثاق کا اضافہ اتنے بے پناہ فوائد دے گیا کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو بھی اپنے ساتھ فرینڈلی کا اضافہ کرنا پڑا۔ ایک دوسرے کی کرپشن بچانے کیلئے پوری دیانتداری اور تندہی سے کوششیں ان سیاستدانوں کی توانائیوں کو نئے معنی پہنا گئیں۔ سیاست میں شعور، آگہی، کمٹمنٹ، خدمت اور لیڈر شپ کی مروجہ اکائیاں ایک ایک کر کے دم توڑ گئیں اور ہر بدی اور برائی جائز قرار پائی اور اس کو نظام بچانے کا نام دے دیا گیا بلکہ اسے قومی خدمت قرار دیا گیا۔ کرپشن کو بچانے کیلئے کیا جانے والا گٹھ جوڑ ایک ایسا سیاسی عمل بن گیا کہ اسکے بغیر جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اترنے یا اتارنے کا شور اس کے تحفظ کا ضامن بن گیا۔
اس وقت جمہوریت جہاں بھی ہے وہ اپنی حدود سے باہر نکل کر ایسا فساد برپا کر چکی ہے کہ شریف آدمی کی انفرادی، خاندانی اور معاشرتی زندگی ہر وقت ہر قسم کے خطرے کی زد میں ہے۔ جمہوریت کا ورد کرنے والے اسے نافذ کرنے کے نام پر انسانیت کا جس طرح خون کر رہے ہیں اس کو سمجھنے اور برا سمجھنے والے اپنے ردعمل کو ”اینٹی جمہوریت“ چلانے کی تہمت سے بچنے کیلئے اپنے تک ہی محدود رکھتے ہیں اور اس سلسلہ میں انکی بے بسی دیدنی ہے۔ بے حسی کہنا زیادہ موزوں ہے۔ عام لوگوں کیلئے ٹرمپ اور نواز شریف کی جمہوریت کا اپنا اپنا مفہوم ہے۔ ایک جمہوری نظام کو بدلنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اسکے بغیر اقتدار میں نہیں آ سکتے تھے اور دوسرے اس نظام کو بچانا چاہتے ہیں جو اسکے بغیر اقتدار میں نہیں رہ سکتے۔ جمہوریت وہ حسن ہے جسے کسی میک اپ کی ضرورت نہیں جو اپنی بدنمائی اور بدصورتی کے باوجود اس کی خوش نمائی اور خوبصورتی کی بات کرنے پر مجبور کرتی ہے اور اسکے بدلے میں یہ جمہوریت اہل اقتدار کی بداعمالیوں، انکی چالاکیوں، اناپرستیوں، ہنرمندیوں اور ہوشیاریوں کو اپنی سیاہ چادر میں اسی طرح ڈھانپ لیتی ہے کہ جنہیں یہ سب نظر آتا ہے وہ بھی عملاً اندھے ہی ہیں اور اگر وہ کسی جمشید دستی کی طرح اپنی بینائی کی دھائی دیں شور مچائیں تو پارلیمانی گٹھ جوڑ ان کا ایسا تمسخر اڑاتا ہے کہ اپنی اپنی عقل و خرد اور اپنی بینائی دونوں پر شک ہونے لگتا ہے اور انکا شور اس جمہوریت میں ایسا دفن ہو جاتا ہے کہ کسی مردے کو دفن کر کے اسکے انجام اور طاقت کی نفی کرنے کے سارے حوالے بے حیثیت ہو جاتے ہیں۔ اہل وطن کو جمہوریت اور میثاق جمہوریت مبارک ہو۔ اسے بچانے والوں کو بھی اور اسے چلانے والوں کو بھی۔