آرمی چیف کی باوقار تبدیلی کے بعد پنجاب اور آزاد کشمیر کابینہ میں توسیع کا مرحلہ بھی مکمل ہوا۔ گورنر ہاﺅس لاہور میں ایک پروقار اور سادہ تقریب میں گورنر پنجاب محمد رفیق رجوانہ نے حلف لیا۔ جس میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق ، سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال سمیت اہم شخصیات اور سرکاری افسران نے شرکت کی۔ 11 رکنی کابینہ میں تین وزراءکا تعلق لاہور شہر سے ہے جو کہ کارکن طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن میں خواجہ سلمان رفیق جنہوں نے سٹوڈنٹ سیاست سے قدم رکھا ۔ پھر بلدیات اور دوسری بار ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ بطور مشیر صحت احسن طریقہ سے اپنی ذمہ داریاں ادا کر چکے ہیں۔ ان کی اپنی ایک خاندانی حیثیت ہے۔ ان کے والد محترم خواجہ رفیق نے بھٹو کی آمریت کے خلاف جام شہادت نوش کی۔ خواجہ عمران نذیر جو کہ اسی شہر سے دو مرتبہ ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ انہوں نے مشرف کی آمریت میں ہر محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کیا پھر بطور جنرل سیکرٹری مسلم لیگ لاہور اپنا لوہا منوایا۔ کارکنوں کے دلوں کی آواز ہیں۔ زعیم قادری بھی دوبارہ ممبر اسمبلی منتخب ہوئے۔ مشرف کی آمریت کے خلاف انکے عزم میں کوئی جنبش نہ آئی کوئی لالچ بھی ان کو خرید نہ سکا حلف کے بعد پورے لاہور میں ان کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ ان کی کابینہ میں شمولیت سے پارٹی میں گہرے اثرات مرتب ہونگے اور کارکنوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
2013ءکے عام الیکشن میں پھر بلدیاتی اور کشمیر الیکشن میں ان وزراءنے دیگر کارکنوں کے ساتھ مل کر کامیابی دلائی شاید 2018ءکے انتخاب میں اس کے گہرے اثرات مرتب ہونگے۔ لاہور کی قیادت جب ملک پرویز بطور صدر خواجہ عمران نزیر بطور جنرل سیکرٹری احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ پنجاب حکومت نے ریکارڈ قائم کیے۔ یقینا پنجاب کے عوام سے وزراءتوقع کریں گے کہ عوام کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ شب و روز عوام کی خدمت کریں گے۔
آزاد کشمیر حکومت جو کہ وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کی قیادت میں تین ماہ قبل منتخب ہوئی ہے وہ ایک مدبر اور سلجھے انداز میں حکومت چلا رہے ہیں۔ آزاد کشمیر کابینہ میں مزید تین وزراءکا اضافہ کیا گیا ہے جن میں چوہدری محمد سعید جنہوں نے تحریک انصاف کے صدر بیرسٹر سلطان محمد چوہدری کو شکست دی جو کہ بڑا کارنامہ ہے حالانکہ چند ماہ قبل ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کی پوری حکومت اور مسلم لیگ مل کر بھی شکست نہ دے سکے تھے۔ مہاجرین سے شوکت شاہ اور حلقہ لاہور سے پہلی بار منتخب ہونے والے ناصر ڈار کو وزارت کا قلمدان دیا گیا ہے۔ چالیس سال کے بعد یہ نشست پاکستان مسلم لیگ اور لاہور کو ملی ہے۔ ناصر ڈار مشہور کشمیری رہنماءمرحوم محمد حسین ڈار کے صاحبزادے اور سردار محمد عالم کے نواسے ہیں جن کا کشمیر کی سیاست میں بڑا نام تھا۔ کشمیری رہنماءرئیس الاحرار چوہدری غلام عباس، مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان، سردار سکندر حیات خان کی میزبانی کا ان کو شرف حاصل تھا۔ محمد حسین ڈار پاکستان مسلم لیگ سے اپنی وابستگی کو کمزور نہیں ہونے دیا۔ مشرف کے آمریت کے دور میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ان کی خدمات کی وجہ سے ان کی دختر محترمہ کرن ڈار ممبر قومی اسمبلی ہیں اور ناصرڈار کو یہ لاہور کی نشست اسی وجہ سے ملی اور میاں شہباز شریف، راجہ فاروق حیدر کی خصوصی شفقت سے وزارت کا قلمدان دیا گیا۔ امید ہے کہ وہ کارکنوں کے معیار پر پورا اتریں گے۔
دیکھا جائے تو عوام تو مسائل میں پریشان ہیں۔ صحت ، تعلیم ، زراعت ، صنعت اور دیگر شعبوں میں دن ، رات سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کچھ دھرنوں اور احتجاج کی وجہ سے اور حکومت کی اپنی کمزور پارلیسیوں سے عوام ابھی تک مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں۔ مسلم لیگ کی حکومت نے ترقی تو کی ہے لیکن بعض ایسے معاملات اور وعدے جو پورے نہ ہوئے جیسے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس پر بھی عمل ہوتا نظر نہیں آتا حکومت تو کہہ رہی ہے کہ 2018ءتک بجلی کے معاملے میں خود کفیل ہو جائیں گے۔ ساڑھے تین سال کے عرصے میں جو کامیابی ہمیں ملی وہ ضرب عضب ہے جس سے دہشت گردی میں کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ کراچی جہاں 1990ءکی دہائی سے امن و امان مسئلہ بنا ہوا تھا وہاں قبضہ گروپ کا نیٹ ورک توڑا گیا۔ راءکی مداخلت کا جو جال بچھا ہوا تھا اس کو کافی حد تک ختم کیا گیا یہ کام اکیلے شاید میاں نوازشریف نہ کر سکتے اس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور مسلح افواج پاکستان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح بلوچستان اور پورے ملک میں بھر پور کردار ادا کیا گیا لیکن ابھی ملک میں چھپے دشمن وار کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کو کمزور پالیسی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ دہشت گردی کے زمرے میں کسی کو معاف نہیں کرنا چاہیے۔ اس میں اپنی اتحادی جماعت یا پاکستان میں کتنا ہی با اثر شخص نہ ہو یہ سب کچھ حکومت کے اکیلے کرنے کا نہیں‘ مسلح افواج پاکستان کے تعاون سے ہی ممکن ہے جیسے پاک چین، سی پیک منصوبہ مکمل ہوا ہے۔ پاک چین ماہرین کے علاوہ مسلح افواج پاکستان اور جنرل راحیل شریف کی خصوصی توجہ سے مکمل ہوا ہے جس کا افتتاح ہو چکا ہے یہ پاکستان اب پورے خطے کے لئے امید کی کرن ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی کے برسراقتدار آتے ہی بھارت کا جنگی جنون بڑھتا جا رہا ہے افغانستان کو بھی ہمارے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ بھارت کو امن اور ہماری ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارت ہمارے ملک میں امن کی جانب بڑھتے اقدامات سے ناخوش ہے وہ چاہتا ہے کہ پاکستان انتشار کا شکار رہے جب سے پاک چین سی پیک منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز ہوا ہے اس کی جانب سے کنٹرول لائن اور ورکنگ باﺅنڈری پر بلا اشتعال فائرنگ اور گولا باری کا سلسلہ جاری ہے حالیہ ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس کے موقع پر بھارت کا پاکستانی مشیر وزیر اعظم سرتاج عزیز کے خلاف رویہ سفارتی آداب کے خلاف ہے اقوام متحدہ اور عالمی برادری بھی خاموش ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی بھارت کو سرپرستی حاصل ہے۔ پاک بھارت مذاکرات اور تعلقات ہمارے سامنے کھلی کتاب ہیں جہاں سے شروع کریں آپ کو کشمیر نظر نہیں آئے گا حکومت کانگریس کی ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی کی عمومی طرز عمل ایک جیسا ہوتا ہے لیکن افسوس ہم قومی مفاد کی بجائے ذاتی تعلقات اور خیر سگالی کی فضاءقائم رکھنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں قائد اعظم کی قومی پالیسی کو دیکھنا ہو گا اس میں ہماری کامیابی ہے۔