روش روش ہے وہی انتظار کا موسم

Dec 08, 2017

کرنل (ر) اکرام اللہ....قندیل

قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہم اپنے ہمسایہ ملک بھارت سے کبھی اعلانیہ اور کبھی غیر اعلانیہ جنگ کی صورتحال سے دوچار رہتے ہیں۔ سارے خطے پر اس کے منفی اثرات نہ صرف دونوں ممالک بلکہ علاقے کے امن و امان اور ترقی پر مرتب ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ سے بیرونی مداخلت اور اندرونی خانہ جنگی کے باعث افغانستان طوفان کی آنکھ بنا ہواہے۔ شروع میں سوویت یونین افغانستان پر حملہ آور ہوا اور امریکہ سوویت روس کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے میدان میں کود پڑا۔ پاکستان کے علاوہ دیگر کئی اسلامی ممالک کے رضاکار اس جہاد میں شامل ہو گئے۔ سوویت یونین کی فوجوں کے انخلاء کے بعد امریکہ نے اپنے فرنٹ لائن اتحادی پاکستان سے منہ موڑ کر بھارت سے رابطے بڑھائے اور مختلف ممالک سے آئے ہوئے جہادی دہشت گرد کہلائے۔ جب امریکہ میں نائن الیون کا سانحہ پیش آیا تو افغانستان پر اس کا ملبہ ڈالتے ہوئے امریکہ نے افغانستان پر انتقام کے نام پر حملہ کر دیا۔ وہ دن اور آج کا دن افغانستان ایک طرف خانہ جنگی کا شکار ہے اور دوسری طرف امریکہ اور اس کے دیگر مغربی ممالک کی اتحادی فوجیں بظاہر خطہ میں امن کے قیام کے لئے وہاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ سابق امریکی صدر اوبامہ نے بالآخر ہار مان کر وہاں سے اپنی فوجیں واپس لانے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن امریکہ میں انتخابات کے بعد نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سٹرٹیجک مفاد کی تکمیل کے لئے غیر معینہ مدت کیلئے قیام کا فیصلہ کر لیا۔ امریکی افواج کی تعداد بھی بڑھا دی لیکن بات نہ بنی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بے مثال جانی مالی اور اقتصادی و معاشی قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے خطہ میں قیام امن کیلئے جنوبی ایشیاء کیلئے بھارت کی سربراہی میں افغانستان سے مل کر امریکی امداد کے بل بوتے پر جو نئی پالیسی مرتب کی اس میں پاکستان کا رول ثانوی حیثیت رکھتا ہے اس پر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ نہ صرف پاک افغانستان سرحدی علاقوں بلکہ سرزمین پاکستان کے اندر بھی طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت اور دہشت گردی کو روکنے اور اس کا قلع قمع کرنے کے لئے پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت پر "DO MORE" کا دبائو روز بروز بڑھایا جا رہا ہے۔ اس کے پیچھے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کا ہاتھ واضح ہے۔ بھارت کے جاسوس جن میں اس کی خفیہ ایجنسی RAW سرفہرست ہے۔ نہ صرف پاکستان کی سرزمین پر بلکہ افغانستان میں بھارت کے مختلف سفارتی قونصلیٹ کی مختلف قائم کردہ ٹریننگ سینٹرز اور دیگر خفیہ اڈوں سے پاکستان کی سرحدی چوکیوں پر اور اندرون فاٹا اور بلوچستان کے مختلف مقامات پر گولہ باری کے علاوہ دیگر دہشت گردی کے حملے جاری ہیں تاکہ پاکستان کی مغربی سرحد کے علاقہ جات اور خصوصی طور پر بلوچستان کو غیر مستحکم کیا جائے۔ مثال کے طور پر بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو صرف اکیلا ہی نہیں بلکہ کئی اور یادیو ایسی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ اس عمل کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مشرقی سرحد اور کشمیر کے علاقہ میں لائن آف کنٹرول پر روزانہ گولہ باری پاکستانی چوکیوں پر حملے اور سویلین آبادی کی ہلاکت جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ایک منصوبہ بندی کے تحت بھارتی اشتعال انگیزی کی مثالیں دنیا کے سامنے ہیں۔ لیکن کوئی ٹس سے مس ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس پس منظر میں گزشتہ ماہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر یہ وضاحت کی تھی کہ دہشت گردی کے تعاقب میں بھارت افغانستان ہی نہیں بلکہ پاکستان کی بھی نگرانی کرے گا اور ضرورت پڑنے پر امریکہ خود بھی پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائے گا۔ پاکستان کو یہ ہدایت بھی کی گئی کہ حقانی گروپ اور طالبان سے اپنا تعلق ختم کرے کیونکہ خطے میں امریکہ وسیع پیمانے پر استحکام لانے کا آغاز کرنے والا ہے۔ اس کیلئے پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردوں کی مخصوص پناہ گاہوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ ریکس ٹلرسن کے دورہ اسلام آباد کے ایک ماہ بعد امریکی وزیر دفاع گزشتہ روز ایک دن کے دورہ پر یہاں تشریف لائے۔ انہوں نے ریکس ٹلرسن کے دورہ پر پاکستان میں کوئی خاص عملدرآمد محسوس نہ کرنے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی رویہ میں کوئی خاص عملی تبدیلی ان کو نظر نہیں آئی۔ انہوں نے اپنی ملاقات میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو اطلاعات کے مطابق یہ پیغام دیاہے کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف امریکی اور بھارتی کارروائی کیلئے تیار رہیں۔ امریکی وزیر دفاع جیمر میٹس کی طرف سے یہ پیغام ایک سنگین دھمکی سے کم نہیں ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم کے ساتھ امریکی وزیر دفاع کی ملاقات میں وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف‘وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیر دفاع خرم دستگیر بھی موجود تھے۔ لیکن وہ جیمز میٹس کو پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے مناسب جواب نہیں دے پائے۔ لیکن چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی وزیر دفاع سے ملاقات میں واضح کر دیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ پاکستان سے DO MORE کی توقع نہ رکھے کیونکہ ہم پہلے ہی اس جنگ میں دنیا کے دیگر تمام ممالک سے کئی گنا بڑھ کر اپنا حصہ ڈال چکے ہیں۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ ہر ممکن طریقے سے بہتر اور دوستانہ تعلقات کا خواہش مند ہے۔ لیکن ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے ہم اپنی قومی سلامتی اور آزادی اور خود مختاری پر کسی صورت میں کوئی سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔

شومئی قسمت تو دیکھئے کہ ہماری حکومت وقت جہاں ایک طرف علاقہ میں بھارت کی بالادستی کے خلاف امریکی عہدیداروں کے سامنے کھل کر بولنے سے ہچکچاتی ہے۔ وہاں اندرون خانہ انٹرنل سکیورٹی کے نازک اور حساس معاملات پر اپنی حکومت کی بقاء کی خاطر طرح طرح کے سمجھوتوں پر بھی تیار ہو جاتی ہے۔ جس کا مظاہرہ حال ہی میں فیض آباد کے دھرنے میں نظر آیا کہ درپیش بلاٹل جائے تو شاید طوفان و دار کا موسم گزر جائے لیکن حکومت جب ایک مصیبت سے جان چھڑاتی ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے ایک نئی پہلے سے بھی بڑی بھیانک صورت احوال نہ جانے کہاں سے آ ٹپکتی ہے۔ منیر نیازی نے کیا خوب کہا تھا کہ میں جب اپنے سفر کے دوران راہ میں بڑی رکاوٹ ایک دریا کو دیکھتاہوں اور بڑی مشکل سے اس دریا کو پار کر کے یہ سمجھتا ہوں کہ ایک سکھ کا چین ملے گا تو اچانک کچھ فاصلے پر ایک پہلے سے بھی بڑا دریا سامنے پاتا ہوں۔ ابھی فیض آباد کے دھرنے کے خاتمے کو ایک دن بھی نہ گزرا تھاکہ لاہور میں مال روڈ پر ایک اور دھرنا شروع ہو گیا۔ اس سے چھٹکارا حاصل کیا ہی تھا جن کے بارے میں کہنے والے کہتے ہیں کہ فوج نے جان چھڑائی اوپر سے امریکی وزیر دفاع اسلام آباد آ وارد ہوئے۔ صد شکر کہ سپہ سالار نے امریکی جنرل کو اس کی دھمکیوں کا وہ جواب دیا جو وزیراعظم‘ وزیر خارجہ‘ وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کو دینا چاہئے تھا۔ ابھی جیمز میٹس کا ہوائی جہاز امریکہ وطن واپسی کیلئے راستہ میں ہی تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے ماڈل ٹائون آپریشن کا فیصلہ سنا دیا اور جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ جاری کردی۔ تفصیلات قارئین اخبارات میں پڑھ چکے ہیں۔ اس دوران سابق وزیراعظم اور مریم نواز لندن روانہ ہو چکے ہیں۔ اس سے پہلے ہی سپریم کورٹ اور احتساب عدالتوں میں مقدمات اور مختلف اپیلوں کی بھرمار ہے۔ اوپر سے ماڈل ٹائون جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ جاری ہونے پر نئے مقدمات شروع ہونگے جن میں بعض نام اخبارات کی سرخی بن چکے ہیں اور پردہ نشینوں کے جلد یا بدیر سامنے آ جائیں گے۔روش ہے وہی انتظار کا موسم
نہیں ہے کوئی بھی موسم‘ بہار کا موسم

مزیدخبریں