استعفوں کیلئے دھرنا ٹرینڈ

تحریک لبیک کے دھرنا کو جب فیض آباد میں دو ہفتے ہوگئے تھے۔وزیر داخلہ احسن اقبال سے پوچھا گیا کہ دھرنے کو کیوں نہیں ہٹاتے تو احسن اقبال کا دعوٰی تھا کہ تین گھنٹے میں آپریشن کر کے دھرنا ختم کروا سکتے ہیں۔مگر ہم کوئی اور لال مسجد اور ماڈل ٹائو ن جیسا سانحہ نہیں چاہتے پھر یہ دھرنے کا معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں گیا ، ہائیکورٹ انتظامیہ پربرہم ہوئی، اور حکم دیا کہ دھرنے کو پریڈ گرائونڈ میں شفٹ کیا جائے، تاکہ عام شہریوں کی مفلوج زندگی کو بحال کیا جا سکے، عوام کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے بھی سوموٹو لیا۔ انٹرسٹنگ بات یہ تھی کہ حکومت سیاسی طور پر تنہا کھڑی تھی، اس بار پارلیمنٹ کا سہارا بھی نہ مل سکا، مگر اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم نے حکومت کو ہمت دی۔ تو بغیر کسی منصوبہ بندی کے آناً فاناً آپریشن شروع کردیا۔ جب آپریشن بیک فائر کر گیا تو کوئی ذمہ داری تو دور کی بات اگلے مرحلے کیلئے بھی تیار نہیں تھا، سوچ بچار کے بعد فوج کو طلب کرنے کا آپشن استعمال کیا گیا۔ فوج کی مدد اور تعاون سے دھرنا ختم ہوا اور تحریک لبیک سیاست میں ایک نئے اضافے کے ساتھ ابھر کر سامنے آگئی۔ اس سے پہلے تحریک لبیک کا سیاسی محاذ پر نام تب سامنے آیا تھا جب این اے 120کا ضمنی الیکشن ہورہا تھا، تحریک لبیک نے این اے 120کے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا اور تمام مذہبی جماعتوں سے زیادہ ووٹ لیے تحریک لبیک کے ووٹ پانچ ہزار تھے جبکہ جماعت اسلامی نے ضمنی الیکشن میں یہاں سے پانچ سو ووٹ حاصل کئے جبکہ این اے 4 خیبر پختونخواہ سے تحریک لبیک نے دس ہزار کے قریب ووٹ حاصل کیے۔ جماعت اسلامی کے ووٹ سات ہزار تھے۔ لگتا یوں ہے کہ پرانی مذہبی سیاسی جماعتیں کھوٹا سکہ ہو گئی ہیں اور نئی مذہبی جماعتیں پروان چڑھ رہی ہیں، جس کا نہ صرف ووٹ بنک ہے بلکہ وہ اتنی سیاسی افرادی قوت رکھتی ہیں کہ وہ حکومت سے استعفیٰ بھی لے سکتی ہے۔ یہ اب جماعت اسلامی کو سوچنا ہے کہ اپنی سیاسی ساکھ کو کیسے بحال کرنا ہے۔ اور ووٹر کو کیسے مائل کرنا ہے ۔ وزیر داخلہ پہلے دن سے کہتے رہے یہ حکومت کے خلاف سازش ہے۔ پاکستان کی عدالت عالیہ اور عدالت عظمٰی نے بھی کہا کہ اس دھرنے میں فوج اور آرمی چیف کا کردار مثبت رہا جبکہ تمام سیاسی جماعتیں اپنا اپنا دامن بچائے خاموش تھیں اور پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک جمہوری حکومت نے میڈیا کی آواز کو دبایا اور ایک فوجی سربراہ نے اس کو بحال کرنے کا کہا۔ ایک دھرنا ڈاکٹر طاہر القادری بھی پیپلز پارٹی کے دور میں لے کر گئے تھے وہ اس سے زیادہ آب و تاب سے تھا، مگر پیپلز پارٹی حکومت کی لاکھ خامیاں سہی ۔ مگر ان کے ٹاپ کے لیڈرز نے ڈاکٹر طاہرالقادری سے براہ راست مذاکرات کئے اور دھرنا ختم کروایا۔ مگر مسلم لیگ ن کی حکومت جو اند ر سے خوف کا شکار تھی۔ دانشمندی کا مظاہرہ نہ کر سکی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک جمہوری حکومت کو جمہوری انداز اپنانے کیلئے فوج کا سہارا لینا پڑا۔

ہم میں سے کسی نے سوچا ہے کہ اسطرح کے حالات اور کرائسز کے اثرات کیا ہوتے ہیں۔ ہم ایسے واقعات کے بعد کے نقصانات تک کو بھول جاتے ہیںاور ان کی زد میں آکر مرنے والوں کو یاد تک نہیں کرتے۔ پہلے ہم نے اپنی نسل کو دہشت گردی میں جھونکا اور اب دھرنوں اور سیاسی انتشار کی طرف راغب کر رہے ہیں۔جب حکومت نے ہفتے کے روز دھرنے کے مقام پر آپریشن کیااور آپریشن کے بعد فیض آباد سے احتجاج پورے ملک میں پھیل گیا جس سے ملک میں برطرف سڑکوں پر رکاوٹیں، راستے بلاک، ٹائر جلائے جارہے تھے کہ ہماری گلی میں رہنے والے بچے نے اپنی گلی میں رکاوٹیں رکھنی شروع کر دیں اور راستہ کو سائیکل ، موٹر سائیکل ، گملے سے بلاک کردیا تو میں نے پوچھا بیٹا یہ کیا کیا ہے آپ نے۔ تو بچے نے جواب دیا ٹی وی میں لوگ راستے بلاک کررہے ہیں،رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں میں نے بھی ایسا کیا۔مہذب معاشروں اور ترقی پسند قوم کی نسل کو امن ، محبت کا درس دیاجاتا ہے۔ ایک کامیاب انسان اور اچھا انسان بنانے کے لیکچر دیئے جاتے ہیں۔ مگر افسوس ہم اپنی نسل کو دہشت گردی اور انتشار کا سبق دے رہے ہیں۔ تو پھر ہمیں بلکل افسوس نہیں کرنا چاہیے کہ ہماری نسل اور قوم کا مستقبل روشن ہوگا کیونکہ جو ہم بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔

ای پیپر دی نیشن