ٹرمپ کا بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا شرانگیز اعلان اور مسلم دنیا سمیت اقوام عالم میں سخت ردعمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے امریکی صدر کے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب کسی بھی امن معاہدے میں مقبوضہ بیت المقدس بطور اسرائیلی دارالحکومت شامل ہوگا۔ انہوں نے دوسرے ممالک سے بھی کہا کہ وہ بھی امریکہ کی طرح اپنے سفارتخانے یروشلم منتقل کردیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ بعض سابقہ امریکی صدور کو یہ اقدام اٹھانے کی ہمت نہیں ہوئی تھی مگر اب بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا وقت آگیا ہے۔ انہوں نے اپنے اس متنازعہ فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے یقین دلایا کہ علاقے میں امن و سلامتی کیلئے کاوشیں جاری رہیں گی۔ انکے بقول مشرق وسطیٰ کا مستقبل روشن اور شاندار ہے اور اس کیلئے مسلمانوں‘ یہودیوں اور عیسائیوں کو متحد ہونا پڑیگا۔ امریکی میڈیا کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس میں کسی دوسرے ملک کا سفارتخانہ موجود نہیں جبکہ تل ابیب میں 86 ممالک کے سفارتخانے قائم ہیں۔ ٹرمپ کے بقول بہت سے امریکی صدور مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارتخانہ منتقل کرنے کی خواہش ظاہر کرتے رہے مگر ان میں ایسا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے وعدہ کیا تھا‘ عالمی مسائل کا حقیقت پسندانہ مقابلہ کرینگے۔ آج وہ اپنا وعدہ پورا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیت المقدس میں تمام مذاہب کے رہنے والوں کو آزادی حاصل ہے۔ یہ تین بڑے مذاہب کا دل اور کامیاب جمہوریت کا مرکز ہے اس لئے وہ امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے احکام جاری کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ دو ریاستی حل کی پالیسی کی حمایت جاری رکھے گا۔ امن ہماری سب سے بڑی امید ہے۔ انکے بقول یہ اقدام امریکہ کے بہترین مفاد اور اسرائیل و فلسطین میں امن کیلئے ضروری تھا۔ امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن کے بقول امریکی صدر کے اعلان پر فوری عملدرآمد شروع کردیا گیا ہے۔
امریکہ نے 70 سال قبل اسرائیل کو تو ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا تھا مگر اسے اپنا سفارتخانہ بیت المقدس میں قائم کرنے کی آج تک ہمت نہیں ہو سکی تھی کیونکہ عالم اسلام ہی نہیں‘ اقوام عالم کے بیشتر ممالک بھی بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ فلسطینی عوام برس ہا برس سے اپنی آزاد و خودمختار ریاست کیلئے جدوجہد کررہے ہیں اور اب تک لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں۔ سات دہائیاں قبل 1948ء میں جب امریکہ نے اسرائیل کو آزاد و خودمختار ریاست کی حیثیت سے تسلیم کیا تو فلسطینی عوام کی حصولِ وطن کیلئے جدوجہد مزید تیز ہوگئی جنہوں نے امریکی پشت پناہی میں یروشلم کو مقتل گاہ میں تبدیل کرنیوالی اسرائیلی فوجوں کا ملی جذبے کے تحت بے جگری سے مقابلہ شروع کیا اور فلسطینی حریت لیڈر یاسرعرفات کی قیادت میں فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی فوجوں پر گوریلا حملوں کا آغاز کیا۔ اگر اسرائیلی افواج کو امریکی کمک حاصل نہ ہوتی تو فلسطینی مجاہدین کی مزاحمت کے آگے انکے پائوں کب کے اکھڑ چکے ہوتے۔ تاہم امریکہ نے جو عملاً صہیونیوں کے زیراثر ہے‘ فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کو کچلنے کیلئے اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیا۔
بیت المقدس مسلم دنیا کا اس بنیاد پر مقدس و محترم مقام ہے کہ یہ ان کا قبلۂ اول ہے۔ اسی تناظر میں مقامی مسلمان مسجد اقصیٰ کو الحرم القدوس الشریف کے نام سے پکارتے ہیں جسے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام کا درجہ حاصل ہے۔ صرف یہی نہیں‘ حضرت نبی آخرالزمان محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتویں آسمان کی جانب عرشِ معلٰی کا مقدس سفر بھی مسجد اقصیٰ سے شروع ہوا تھا اس لئے مسلم دنیا اپنے اس مقدس مقام کی حفاظت کیلئے بھی مر مٹنے کو تیار رہتی ہے جبکہ مشرق وسطیٰ میں آباد یہودیوں نے ایک ناپاک سازش کے تحت فلسطین کی مسلم آبادی میں سے صہیونی ریاست اسرائیل قائم کرکے مسلمانوں کے قبلہ اول پر اپنا تسلط جمایا اور اس خطہ میں ایک مستقل فساد کی بنیاد رکھ دی۔ اسرائیل کے سرپرست امریکہ نے عرب دنیا کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے 1979ء میں مصر کے صدر انورالسادات کو استعمال کرکے انکے ذریعے اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ نامی ایک شرمناک معاہدہ کرایا جس کے ذریعہ اسرائیل کے ساتھ عربوں کے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی گئی تاہم اس معاہدے میں بھی امریکہ فلسطینیوں کا آزاد ریاست کا حق تسلیم کرنے پر مجبور ہوا۔ فلسطینی مجاہدین کی سخت مزاحمت کے باعث اس معاہدہ پر کوئی عملی پیشرفت نہ ہوسکی چنانچہ مصر کے صدر انورالسادات اور امریکی صدر جمی کارٹر کے مابین ایک دوسرا معاہدہ ہوا جس کے تحت امریکہ کے پانچ ہزار فوجیوں کو مصر میں تعینات ہونے کی اجازت دی گئی۔ اسکے عوض مصر امریکی امداد کا مستحق ٹھہرا۔ اس معاہدے کی روشنی میں ایک معاہدہ امریکہ اور اسرائیل کے مابین ہوا جس کے تحت مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک مشترکہ فوجی معاہدے پر اتفاق کیا گیا جو درحقیقت اسرائیلی فوج کو فلسطینی مجاہدین کیخلاف امریکی کمک پہنچانے کا معاہدہ تھا۔ چنانچہ فلسطینی عوام نے اور مصر کے سوا پوری مسلم دنیا نے کیمپ ڈیوڈ میں طے پانے والے معاہدے کو تسلیم کیا نہ خطہ میں قیام امن کی ضمانت گردانا جبکہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی ہمہ وقت سرپرستی اور مالی و حربی معاونت کی جاتی رہی ہے۔ اسکے باوجود کسی امریکی صدر کو بیت المقدس میں یہودی بستیاں قائم کرنے کے اسرائیلی گھنائونے منصوبے کی اعلانیہ حمایت کی کبھی جرأت نہیں ہوسکی تھی۔
ٹرمپ وہ واحد امریکی صدر ہیں جنہوں نے ری پبلکن پارٹی کا امیدوار نامزد ہوتے ہی مسلم دنیا مخالف ایجنڈے کو اپنے منشور کا حصہ بنا کر بیت المقدس میں صہیونی بستیاں بسانے کے شیطانی منصوبے کی حمایت کی اور پاکستان سمیت پوری اسلامی دنیا پر اسلامی دہشت گردی کا لیبل لگادیا۔ اسی تناظر میں انکے مسلم کش انتہاء پسندانہ منشور کیخلاف دنیا بھر سے ردعمل آنا شروع ہوا اور انکے صدر منتخب ہونے پر بھی دنیا بھر میں ان کیخلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے مگر انہوں نے کسی بھی احتجاج کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے مسلم کش منشور کو امریکی پالیسیوں کا حصہ بنالیا جن پر عملدرآمد کا بھی انہوں نے آغاز کردیا۔ انکے انتخاب پر سب سے زیادہ خوشی بھی اسی تناظر میں اسرائیل اور بھارت میں منائی گئی جس سے مسلم دنیا کیخلاف ہنود و یہود و نصاریٰ کے اتحاد کا تصور بھی نمایاں ہوگیا جس کے ماتحت اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی بستیاں بسانے کے اپنے ناقابل عمل منصوبے پر عملدرآمد کا آغاز کردیا جبکہ ٹرمپ انتظامیہ نے بیت المقدس کو اسرئیلی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کی راہ بھی ہموار کرنا شروع کردی جسے گزشتہ روز ٹرمپ نے عملی جامہ پہنا کر اپنی اعلانیہ مسلم دشمنی کا ثبوت فراہم کردیا ہے۔ انکے بقول مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے سے علاقائی اور عالمی امن کی راہ ہموار ہوگی جبکہ اس شیطانی فیصلے سے درحقیقت مشرق وسطیٰ اور اسلامی دنیا میں ایک نئے خلفشار کی بنیاد رکھی گئی ہے جو بالآخر عالمی امن کی تباہی پر منتج ہوگی کیونکہ حرمتِ رسولؐ اور قبلۂ اول و بیت اللہ کے تحفظ کیلئے کٹ مرنے کو تیار مسلم امہ ہر قیمت پر بیت المقدس کی حفاظت کریگی اور اسرائیل سے اس کا قبضہ چھڑانے کیلئے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوگی جس کی دعوت صہیونیوں کے انتہاء پسند نمائندے ٹرمپ نے خود دی ہے۔
انکے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی مسلم دنیا سمیت پوری اقوام عالم میں احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ فلسطین کے صدر محمود عباس نے امریکہ کو دوٹوک الفاظ میں باور کرایا ہے کہ بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت ہے اور رہے گا۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان نے بھی ٹرمپ کے اس اعلان کو مسلم امہ کو مشتعل کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ترک صدر اردوان نے واضح کیا ہے کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی ناپاک جسارت کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دی جائیگی۔ وزیر خارجہ پاکستان خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ امریکہ کی اسلام دشمنی کا ایسا نمونہ پہلے کبھی نہیں دیکھا جبکہ ٹرمپ کے اس اقدام کیخلاف مسلم دنیا کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کا 13دسمبر کو ہنگامی اجلاس طلب کرلیا کیا گیا ہے۔
مسلم دنیا کا یہ ردعمل تو فطری تھا جبکہ مغرب اور یورپ نے بھی ٹرمپ کے اس فیصلے کو مسترد کردیا ہے۔ چین‘ برطانیہ اور فرانس کی جانب سے ٹرمپ کے متذکرہ فیصلے کو علاقائی اور عالمی امن کو نقصان پہنچانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ فرانس کے صدر ایمانول میکرون نے اس فیصلہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرانس اور یورپ دو ریاستی حل کے حامی ہیں۔ ترک صدر اردوان نے تو اس فیصلے کی بنیاد پر اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کرنے کا اعلان بھی کردیا ہے جبکہ فلسطین کے صدر محمود عباس نے اسے فلسطین کیخلاف کھلے اعلان جنگ سے تعبیر کیا ہے اور باور کرایا ہے کہ یہ اقدام امن کی کوششوں کیلئے ’’موت کا بوسہ‘‘ ہے۔ صرف یہی نہیں یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے بھی ٹرمپ کے اس اعلان کو ناروا قرار دیا ہے اور فلسطین کا مسئلہ مذاکرات سے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اسی طرح پوپ پال نے بھی ٹرمپ کے اعلان پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ بیت المقدس کا سٹیٹس نہیں بدلا جانا چاہیے۔
اس صورتحال میں صہیونیوں کے نمائندے ٹرمپ اگر اسلامی دنیا اور اقوام عالم کی خفگی اور مزاحمت کو نظرانداز کرکے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی جنونیت پر کاربند رہتے ہیں تو اس سے امریکہ اور اسرائیل کیخلاف ایک بڑی جنگ کا آغاز خارج ازامکان نہیں ہوگا۔ ٹرمپ نے یہ فیصلہ کرکے علاقائی اور عالمی امن کی نہیں‘ ایک نئے فساد اور عالمی تباہی کی بنیاد رکھی ہے جبکہ اب مسلم دنیا کے بھی اتحاد و یکجہتی کی لڑی میں پروئے جانے کا امکان واضح ہوگیا ہے۔ اب او آئی سی‘ اقوام متحدہ اور یورپی یونین سمیت تمام علاقائی اور عالمی نمائندہ تنظیموں اور اداروں کو علاقائی اور عالمی امن کی خاطر بہرصورت سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور دنیا کو ٹرمپ کے شر سے بچانے کا تردد کرنا ہوگا بصورت دیگر ٹرمپ کے ہاتھوں دنیا کی تباہی نوشتۂ دیوار ہے۔