پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں تمام پارلیمانی جماعتوں جن میں اپوزیشن میں شامل مسلم لیگ (ن) کا ’’لیڈنگ رول ‘‘ تھا نے آئین میں متفقہ طور پر 18ویں ترمیم منظور کرکے وفاق اور صوبوں کے درمیان ایک نیا ’’عمرانی معاہدہ‘‘ کر دیا اس سے جہاں بڑی حد تک ’’صوبائی خود مختاری ‘‘ کا مسئلہ حل کر دیا گیا وہاں آئین 1973ء کو اپنی اصلی شکل میں بحال کر دیا گیا بلکہ اس میں پائی جانیوالی خامیوں کو دور کرنے کی شعوری کوشش کی گئی اس آئینی ترمیم کا کریڈٹ جہاں تمام پارلیمانی جماعتوں کو جاتا ہے وہاں میاں رضا ربانی کی خدمات کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جن کی دن رات کی کوششوں سے آئین میں 18ویں ترمیم کی منظوری ممکن ہوئی تاہم اسکے باوجود آئین میں کچھ سقم رہ گئے جن سے حکومت اور اپوزیشن کو پریشان صورتحال سے دوچار کر رکھا ہے آئین میں ترمیم کر کے جہاں چیف الیکشن کمشنر کے صوابدیدی اختیارات کم کر دئیے گئے تھے وہاں چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کی تقرری پر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان ’’بامعنی مشاورت‘‘ کو لازمی قرار دیکر ایک نئے ’’آئینی بحران‘‘ کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’ڈیڈ لاک‘‘ ہونے کی صورت میں آئین’’ خاموش ‘‘ہے ۔ آج آئینی بحران ایک بار پھر ’’ دستک ‘‘دے رہا ہے یہ آئینی بحران اس لئے پیدا ہونے کا خدشہ ہے وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف سے ’’بامعنی مشاورت‘‘ کیلئے تیار نہیں وہ اپوزیشن کو ’’چور اور ڈاکو‘‘ کے القابات سے نوازتے رہتے ہیں جبکہ اپوزیشن ان کو ’’سلیکٹیڈ پرائم منسٹر‘‘ کا طعنہ دے کر مشتعل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی وزیر اعظم عمران خان ’’کرپٹ ‘‘اپوزیشن کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہتے ہیں اور نہ ہی اسکی طرف دیکھنا گوارہ کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف اپوزیشن نے ان کا پاکستان کے ایک بہادر قبیلہ سے تعلق کو ان کی ’’چڑ‘‘ بنا لیا ہے اور پچھلے سوا سال کے دوران وزیر اعظم کو ’’پارلیمان ‘‘ میں تقریر نہیں کرنے دی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’کشیدہ تعلقات‘‘ سے ’’پارلیمان ‘‘ میں تنازعات حل ہونے کی بجائے فریقین عدلیہ کا دروازہ کھٹکا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دوارکان فروری 2019ء کو ریٹائر ہوئے ہیں لیکن وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر میں ’’بامعنی مشاورت‘‘ نہ ہونے سے بات آگے کو بڑھ نہیں سکی۔ اب چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان 5دسمبر2019ء کو ریٹائر ہو گئے ہیں۔ ان کامنصب خالی ہونے سے الیکشن کمیشن عملاً ’’غیر فعال‘‘ ہو کر رہ گیا ہے۔ انکی ریٹائرمنٹ سے قبل تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ نہ ہوسکا الیکشن کمیشن کے غیر فعال ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ تحریک انصاف کو ہوا ہے جب تک الیکشن کمشن فعال نہیں ہو گا اس وقت فارن فنڈنگ کیس بارے میں کسی پیش رفت کا امکان نہیں ۔ ایک دن خبر آئی کہ الیکشن کمیشن کے چیف جسٹس اور ارکان کی تقرری پر قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان دو ارکان کی تقرری پر اتفاق رائے ہو گیا ہے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بلوچستان سے حکومت اور سندھ سے اپوزیشن کا رکن لینے پر معاہدہ ہونے امکان پیدا ہو گیا لیکن اپوزیشن کے ارکان نے الیکشن کمیشن کے دو ا رکان کی تقرری کو چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی سے ’’مشروط‘‘ کرکے حکومت لئے ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے حکومت اوراپوزیشن کے درمیان ’’ڈیڈلاک‘‘ سے یہ معاملہ 11دسمبر 2019ء تک موخر ہو گیا ہے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں دو ارکان کی تقرری پر اصولی طور پر اتفاق رائے کے بعد اپوزیشن نے حکومت کو ’’ٹف تائم ‘‘ دینے کیلئے ایک نئی پوزیشن اختیار کر لی ہے اپوزیشن ارکان راجہ پرویز اشرف اور سینیٹر مشاہد اللہ خان نے موقف اختیار کیا ہے کہ’’ ہم الیکشن کمیشن کی تشکیل ایک ہی دفعہ چاہتے ہیں ،الیکشن کمیشن میں کام اس لئے رکا ہوا ہے کہ وزیر اعظم ،اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتے،ہر کام کو بلا وجہ انا کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے‘‘ اگرچہ الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری کیلئے 11دسمبر 2019ء کو اجلاس طلب کر لیا گیا ہے لیکن اسکے ایجنڈے میں چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے معاملے کو شامل نہیں کیا گیا حکومت اوراپوزیشن کے درمیان’’ ڈیڈلاک‘‘کی وجہ سے پارلیمانی کمیٹی کا گذشتہ اجلاس بھی مختصر کارروائی کے بعدبغیرکسی نتیجہ کے ملتوی کر دیا گیا وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر نے دونوں ارکان کیلئے تین ،تین نام تجویز کئے ہیں ۔وزیراعظم نے عمران خان نے سندھ سے رکن کیلئے جسٹس ریٹائرڈ صادق بھٹی، جسٹس ریٹائرڈ نورالحق قریشی اورعبدالجبارقریشی اور بلوچستان کیلئے ڈاکٹرفیض محمد کاکڑ، میرنوید جان بلوچ اورامان اللہ بلوچ کے نام تجویز کئے ہیں جب کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے سندھ کیلئے نثاردرانی، جسٹس(ر) عبدالرسول میمن اورنگزیب حق اور بلوچستان سے شاہ محمود جتوئی ایڈووکیٹ ، سابق ایڈووکیٹ جنرل محمد روف عطااورراحیلہ درانی کے نام تجویز کئے ہیں۔ قبل ازیں الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری کیلئے قائم پارلیمانی کمیٹی میں 2ارکان تبدیل کر دیئے گئے،مسلم لیگ (ن)کے مرتضیٰ جاوید عباسی کی جگہ شزا خواجہ فاطمہ کو کمیٹی کا حصہ بنایا گیا ہے جبکہ حکومتی رکن فخر امام کی جگہ پرویز خٹک کو شامل کرلیا گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے میاں نواز شریف کی علالت کے باعث لندن میں ’’ڈیرے‘‘ ڈال رکھے ہیں انکی فوری وطن واپسی کا امکان نہیں تاہم وہ لندن بیٹھ کر بھی پاکستان میں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور پاکستان میں ہونیوالے اہم واقعات سے ’’لمحہ لمحہ‘‘ باخبر رہتے ہیں انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی وزیر اعظم عمران خان کو چیف الیکشن کمشنر کیلئے تین نام تجویز کر دئیے انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے نام ایک ہفتے میں ہی دو خطوط لکھے ہیں جس میں انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کی جلد از جلد تقرری پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے ناصرمحمود کھوسہ، جلیل عباس جیلانی اور اخلاق احمد تارڑ تجویز کئے ہیں ۔شہبازشریف نے وزیراعظم کو خط میں لکھا کہ میری دانست میں یہ ممتاز شخصیات اس منصب کیلئے نہایت مناسب اور اہل ہیں، بغیر کسی تاخیر کے چیف الیکشن کمشنر کیلئے یہ تین نام زیر غور لائیں۔جب کہ آئین کے آرٹیکل 213 ٹو اے کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کرے۔ شہباز شریف نے وزیراعظم عمران خان سے خط میں کہا کہ میری دانست میں آئین کے تحت آپکو مشاورت کا یہ عمل بہت عرصہ قبل شروع کرنا چاہیے تھا وزیر اعظم عمران خان نے بھی چیف الیکشن کمشنر کیلئے جو تین نام تجویز کئے ہیں ان میں بابر یعقوب، فضل عباس میکن اور عارف خان شامل ہیں اپوزیشن نے آئین کے آرٹیکل 213میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک کی صورت میں سپریم کورٹ سے رہنمائی کیلئے رجوع کر لیا ہے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری کے معاملے کے حل کیلئے حکومت 10 روز کی مہلت دیدی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت الیکشن کمشن میں کی جانیوالی تقرریوں بارے میں کس حد تک سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے
مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں جہاں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آئینی ترمیم کی حمایت یا مخالفت کا معاملہ زیر غور آیا ہے وہاں الیکشن کمیشن کے غیر فعال ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا میاں شہباز شریف نے پارٹی رہنمائوں کو مشاورت کیلئے لندن بلوا لیا ہے خواجہ آصف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کا وفد پہنچ گیا ہے وفد میں احسن اقبال ، رانا تنویر حسین ، سردار ایاز صادق ،مریم اورنگ زیب اور امیر مقام شامل ہیں پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کی تقرری پر اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں ایک آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کرنے عندیہ دیدیاگیا ہے مسلم لیگ (ن) کا وفد آئینی ترمیم کا مسودہ لے کر لندن پہنچ گیا ہے اور اس آئینی مسودہ پر پارٹی کے صدر میاں شہباز شریف سے مشاورت کی جا رہی ہے اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پیپلزپارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو آئینی ترمیم سے آگاہ کردیا گیا ہے 11دسمبر کو حکومت کو باقاعدہ طورپر آئینی مسودہ پیش کیا جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما محسن شاہ نواز رانجھا نے بتایا ہے کہ اپوزیشن چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کی نامزدگی پر پارلیمانی کمیٹی میں اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں نیا طریقہ کار وضع کرنے کیلئے آئینی ترمیم لا رہی ہے انہوں نے کہا کہ ہم پارلیمانی کمیٹی کے گزشتہ اجلاس میں آئینی ترمیم کا مسودہ لے کر گئے تھے مگر بوجوہ اجلاس میں پیش نہیں کیا جاسکا ، آئین میں پارلیمانی کمیٹی میں ڈیڈلاک کی صورت میں طریقہ کار ’’ خاموش ‘‘ہے آئینی ترمیم میں اس حوالے سے ابہام دور کیا جائے گا ہم یہ معاملہ پارلیمنٹ میں ہی حل کرنا چاہتے ہیں ۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر و قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے پارٹی کے قائد میاں نواز شریف سے ’’ان ہائوس ‘‘ تبدیلی کے آپشن پر بات آگے بڑھانے کی اجازت حاصل کر لی ہے میاں نواز شریف ’’ان ہائوس تبدیلی یا قومی حکومت ‘‘کے حق میں نہیں تھے لیکن اب ان کے موقف میں قدر ے لچک پیدا ہو گئی ہے میاں شہباز شریف نے ’’ان ہائوس‘‘ تبدیلی کے آپشن پر اپوزیشن جماعتوں سے رابطے شروع کر دئیے ہیں پیپلز پارٹی بھی ان ہائوس تبدیلی کے حق میں ہے لیکن جمعیت علما ء اسلام ( ف) کے امیر مولانا فضل الرحمنٰ ان ہائوس تبدیلی کی بجائے نئے انتخابات چاہتے ہیں مسلم لیگ (ن) آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی کی ’’ان ہائوس‘‘ تبدیلی سے مشروط کر نا چاہتی ہے مسلم لیگ (ن) سے دبائو بڑھانے کے لئے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے مجوزہ قانون سازی پر حکومت سے کسی سطح پر مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے مسلم لیگ (ن) ’’ مقتدر حلقوں ‘‘سے مولانا فضل الرحمنٰ سے کی گئی ’’کمٹمنٹ‘‘ پوری کرنے کا تقاضا کرے گی اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آئین میں ترمیم ، نئی قانون سازی کے لیے وزیرقانون فروغ نسیم کی سربراہی میں 8 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے لیکن ایسا دکھائی دیتا اپوزیشن اس کمیٹی سے کوئی بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہو گی اور وہ فیصلہ کن حیثیت رکھنے والی قوتوں سے ’’ معاملہ ’‘‘ کرے گی قومی اسمبلی کا اجلاس 20دسمبر2019ء تک جاری رکھا جائے گا حکومت اور اپوزیشن کے’’ کشیدہ تعلقات کار ‘‘کے باعث رواں سیشن میں آرمی چیف کی تقرری اور مدت ملازمت میں تقرری میں توسیع بارے میں قانون سازی کا امکان نظر نہیں آتا ۔ اس ’’بھاری پتھر‘‘ کو اٹھانے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے ۔