لاہور(حافظ محمد عمران/نمائندہ سپورٹس) پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین خالد محمود کا کہنا ہے کہ کرکٹ بورڈ میں تبدیلی سے نقصان ہوا ہے۔ معاملات سدھرنے کے بجائے بگڑتے جا رہے ہیں، آفیشلز کی بھاری تنخواہیں کرکٹرز میں احساس کمتری کا باعث ہیں، کماتے کرکٹرز ہیں اور لاکھوں ماہانہ آفیشلز کو دیئے جا رہے ہیں، بھاری تنخواہوں سے مفادات بہت بڑھ چکے ہیں سب اپنے عہدوں کو مضبوط کرنے میں مصروف ہیں ۔کرکٹ کی کسی کو فکر نہیں ، احسان مانی ہمارے کلچر اور لوگوں کو سمجھنے میں ناکام نظر آتے ہیں،پی سی بی تین جزیروں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ چیئرمین احسان مانی، چیف ایگزیکٹو وسیم خان اور ڈائریکٹر انٹرنیشنل ذاکر خان تین جزیروں کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ چیف ایگزیکٹو نازل ہوئے ہیں یا انہیں امپورٹ کیا گیا ہے، بورڈ کے فیصلے سمجھ سے باہر ہیں، مصباح الحق کو اختیارات کا مرکز بنا کر اختلاف رائے اور دوسری سوچ کا راستہ بند کر دیا گیا ہے، وقار یونس مسلسل ناکامی کے باوجود کوچ مقرر کر دیا گیا ہے ایسی کیا مجبوری ہے۔ محکمہ جاتی کرکٹ کی ملک کیلئے خدمات ہیں اچانک محکموں کی ٹیموں کو ختم کرنے سے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ لیگل ڈیپارٹمنٹ سے ایک شخص کو چیف آپریٹنگ آفیسر مقرر کرنے سے فیصلہ سازوں کی سمجھ بوجھ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ سلیکشن کمیٹی کیلئے کوآرڈینیٹر مقرر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ چیف سلیکٹر کو بیرون ملک دوروں پر ٹیم کیساتھ سفر نہیں کرنا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نوائے وقت کیساتھ خصوصی گفتگو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہار جیت سے قطع نظر کرکٹ بورڈ کے انوکھے فیصلے سمجھ سے باہر ہیں۔ جس انداز میں تقرریاں کی جا رہی ہیں اس کی تاریخ میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ ان فیصلوں کے دفاع میں کوئی دلیل نہیں دی جا سکتی۔ محکموں کی ٹیموں کو بند کرنا اور مکمل طور پر ان کا کردار ختم کر دینا نقصان دہ ثابت ہو گا۔ اے ایچ کاردار مرحوم کرکٹرز کے معاشی مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے یہ کرکٹ شروع کی تھی۔ محکمہ جاتی کرکٹ کے آغاز سے قبل کرکٹرز کے پاس جوتے خریدنے کیلئے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے۔ موجودہ انتظامیہ نے متبادل دیکھے بغیر محکمہ جاتی کرکٹ ختم کر دی۔ علاقائی ٹیموں کا نظام چلایا جا سکتا ہے لیکن کیا اس نظام کو متعارف کروانے سے قبل محکموں سے ملنے والی ملازمتوں اور معاشی مسائل کا حل تلاش کیا گیا ہے۔ احسان مانی کا زیادہ تجربہ بیرون ملک کام کرنے کا ہے۔ وہ اب تک لوگوں کو سمجھنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ بورڈ میں اعلی سطح پر تبدیلی سے بہتری نہیں آئی بلکہ مسائل میں اضافہ ہوا ہے اور کرکٹرز میں یہ سوچ تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے کہ کماتے ہم ہیں اور کروڑوں ماہانہ آفیشلز کو تنخواہوں کی مد میں دیئے جا رہے ہیں۔ سب اپنے عہدوں کو بچانے اور مضبوط کرنے کی دوڑ میں لگے ہیں اس مفاد پرستی کے دور میں کرکٹ کی بہتری کیلئے سوچنے کا وقت کس کے پاس ہے۔ کرکٹ کے حلقوں میں ہونے والی گفتگو بہت تشویشناک ہے۔ آفیشلز کی تقرریوں پر اٹھنے والے سوالات نے نظام کو مشکوک بنایا ہے۔ امپورٹڈ چیف ایگزیکٹو کو لامحدود اختیارات دیئے گئے ہیں۔ وزیر اعظم کے قریبی دوست ذاکر خان بھی فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ کوئی سمجھا سکتا ہے کہ وقار یونس کی تقرری کس بنیاد پر کی گئی وہ ایک ثابت شدہ ناکام کوچ ہے پھر بھی انہیں اہم عہدہ دیا گیا ہے جانے کیا مجبوری ہے۔ مصباح الحق کو اتنے عہدے دیئے گئے ہیں کہ شاید کام کرنے والوں کی کمی ہے یا پھر کرکٹ بورڈ نے سارا وزن ان کے کندھوں پر لاد کر خود کو معاملات سے الگ کر لیا ہے۔ ایک شخص کیلئے اتنے اہم عہدوں پر کام کرنا ممکن ہی نہیں ۔ جب وہ سیزن میں قومی ٹیم کیساتھ مصروف ہوں گے تو ڈومیسٹک کرکٹ کے مقابلوں کو کون دیکھے گا۔ چیف سلیکٹر نے قومی ٹیم کو نیا خون دینا ہے، ٹیلنٹ تلاش کرنا ہے، نئے کھلاڑیوں کو گراؤنڈ میں دیکھنا ہے جب وہ ملک میں نہیں ہو گا تو یہ سب کام کیسے کریگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اعدادوشمار دیکھ کر سلیکشن کریں گے۔ پھر وہ ہیڈ کوچ بھی ہے۔ یہ دو عہدے ایک شخص کے پاس ہونے کی وجہ سے اختلاف رائے کا راستہ بند کر دیا گیا ہے۔ ایسے فیصلوں سے پاکستان کرکٹ کو مذاق بنا دیا گیا ہے۔