گزشتہ دنوںچین نے چاند کی سطح پر تحقیق کے ایک اور خلائی مشن میں کامیابی حاصل کر لی۔ چین کی جانب سے بھیجا گیا روبوٹک خلائی جہاز 'چینگ فائیو' نے کامیابی سے چاند کی سطح پر لینڈنگ کی۔اس مشن کا مقصد چاند کی زمین سے مٹی اور پتھروں کے نمونے اکٹھے کر کے واپس زمین پر لانا ہے۔اس مشن کے دوران چاند گاڑی متوقع طور پر اگلے چند دن چاند کی سطح پر گزارے گی اور جو علاقے کی ارضیاتی خصوصیات جانچنے کے لیے مواد اکٹھا کرے گی۔ یہ چاند گاڑی بہت سے آلات سے لیس ہے جن میں کیمرہ، سپیکٹرو میٹر، ریڈار وغیرہ شامل ہیں۔یہ چاند گاڑی چاند کی سطح سے تقریباً دو کلو مٹی اکٹھا کر کے چاند کے مدار میں گردش کرتے ربوٹک خلائی جہاز کے دوسرے حصے کے ذریعے زمین تک بھجوائے گی۔اس سے قبل 44 برس قبل یہ عمل کیا گیا تھا جب سویت یونین کے لونا 24 مشن کے دوران چاند کی سطح سے صرف 200 گرام مٹی معائنے کے لیے اکٹھی کی گئی تھی۔چین کے اس مشن نے چاند پر اپنا جھنڈا بھی گاڑا اس سے قبل امریکہ بھی اپنا جھنڈ ااسی طرح چاند پر لہرا چکا ہے۔ چین سے پہلے روس اور امریکہ بھی چاند پر پہنچ چکے ہیں مگر وہاں سے زمین پر مٹی اور پتھروں کے زیادہ مقدار میں نمونے لانے کا کام چین کی طرف سے انجام دیا گیا ہے، اسے کوئی بڑا انوکھا اور منفرد کارنامہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ چین جس طرح دنیا میں پھیل رہا ہے اور اپنی حیثیت منوا اور مضبوط بنا رہا ہے‘ اس سے قدرے بڑا کارنامہ ہے۔ تھوڑا سا تاریخ پر نظر ڈالیں تو خلافت عثمانیہ کی ایک جنگ میں الجھنے سے معیشت زبوںحال ہوئی تو اس کی خلافت کا شیرازہ بکھر گیا۔ برطانیہ کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں اس کی بھی معیشت ڈوبی تو اس کی سلطنت پر شب ستم ٹوٹ پڑی۔ سوویت یونین کی شکست وریخت تو کل کی بات ہے۔ سرد جنگ میں اس کی گرم پانیوں تک پہنچنے کی ا حمقانہ خواہش میں اس کی معیشت بھی لرزی ڈگمگائی،ڈھے گئی اور اس کے ٹکڑے ہو گئے۔ اب ایک طرف چین کی معیشت مضبوط تر ہو رہی ہے۔ اس کا گراف تیزی سے اوپر جا رہا ہے جبکہ امریکہ کا اتنی ہی تیزی سے نیچے آرہا ہے۔ امریکہ قرضوں کے جال میں بھی جکڑا ہوا ہے۔ ٹرمپ جاتے جاتے پرانی جنگیں سمیٹ کے اور نئی جنگوں کی بنیاد استوار کرکے جا رہے ہیں۔اب تک جو نقصان ہو چکا ہے پورا ہونا ممکن نہیں اور پھر کرونا نے امریکی معیشت کو ایک اور زک پہنچائی ہے۔ امریکہ اس صورتحال سے فرسٹریشن کا شکار ہے۔ وہ چین کے مقابل بھارت کو لانا چاہتا ہے۔ اسکی معیشت کو بھی کرونا چاٹ رہا ہے۔ اسکی اپنی بقاء سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایک بار 1962ء اور دوسری مرتبہ حالیہ دنوں چین نے اس کو سبق سکھایا ہے ۔ اسی دوران چین کا ایک اور کارنامہ دنیا کے سامنے آیا ہے اور یہ کارنامہ ٹرمپ کے ایک بااعتماد ساتھی سامنے لائے ہیں۔امریکی جاسوسی شعبہ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ چین سپر فوجی بنانے کیلئے حیاتیاتی ٹیسٹ کر رہا ہے۔انٹلیجنس ڈائریکٹر جان رائٹ کلف کے مطابق نسانی جانچ کا مقصد ’حیاتیاتی طور پر بہتر صلاحیتوں‘ والے فوجیوں کو تیار کرنا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے مئی سے قومی انٹلیجنس کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے جان رائٹ کلیف نے ایک اخبار کے آرٹیکل میںیہ دعوے کیے تھے ، جہاں انہوں نے متنبہ کیا تھا کہ چین آج "امریکہ کو سب سے بڑا خطرہ ہے"۔'وال اسٹریٹ جرنل میں تحریر کرتے ہوئے ، رائٹ کلف نے کہا: "ذہانت واضح ہے: بیجنگ امریکہ اور بقیہ سیارے کو معاشی ، فوجی اور تکنیکی طور پر غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ چین کے بہت سارے بڑے عوامی اقدام اور نمایاں کمپنیاں چینی کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں کو صرف چھلکنے کی پیش کش کرتی ہیں۔رائٹ کلف نے کہا کہ چین اپنے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے غیر معمولی حد تک چلا گیا ہے۔ چین اگر سپر سولجر بنا لیتا ہے اس سے امریکہ کو کیا نقصان ہوسکتا ہے۔کیا امریکہ چین کے ساتھ براہِ راست جنگ لڑنا چاہتا ہے۔ایسا مشکل نظر آتا ہے۔اس نے بھارت کو چین کے آگے پھینک دیا ہے۔سپر سولجر اگر چین نے تیار کرلئے ہیں یا تیاری کے مراحل میں ہیں تو وہ بھارتی فوج پر بھاری پڑیں گے۔مگر یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ چین نے بھارتی فوج کیلئے سپر سولجر نہیں بنائے۔بزدل بھارتی فوج کیلئے چین کو اتنا خرچہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اس کیلئے تو پہلے ہی چین کا ہر فوجی سپر سولجر ہے۔سوپر سولجر کے بارے بتائی گیا ہے کہ وہ انتہائی سخت جان ہونگے۔زخمی ہونے کی صورت میں جلد ٹھیک ہوجائینگے۔سوپر میں کی طرح طاقتور، انہیں بھاگتے رہنے سے سانس نہیں چڑھے گا،خوراک معمولی ہوگی۔نیند چند منٹ میں پوری ہوجائے گی۔چین نے ایسا سولجر بنا یایا نہیں بنایا امریکی انٹیلی جنس افسر نے چین کو بدنام کرنے کی کوشش میں امریکیوں اور بھارتیوں کے حواس ضرور مختل کردیئے ہیں۔یہ فرضی سوپر سولجر انکے اعصاب پر سوار ضرور ہوگیا ہے۔