ایک زمانہ تھا نصاب تعلیم میں مرکزی حیثیت استاد کو حاصل تھی والدین اساتذہ کرام سے پو چھتے تھے کہ ہمارے بچے کا کردار کیسا ہے؟ اب صورتحال یہ ہے،کہ اب بچے سے پوچھا جا تا ہے کہ تیرے استاد کردار کیسا ہے؟اب نصاب مرکزی حثیت بچے کو حا صل ہے۔ایک گرلز ہا ئی سکول کی پر نسپل نے دسویں جما عت کی طالبہ سے پو چھا کہ آپ کا فی دنوں سے سکو ل نہیں آرہی آخر کیوں؟ بچی نے جواب دیا۔ اس کا جواب میری ما ن سے پوچھا جائے وہ کہتی ہیں سکول مت جائو؟ شام کو ٹیوشن اکیڈمی جانا۔آپ کو خارج کو ئی نہیں کر سکتا اور تہمارا داخلہ بھی ریگو لر سٹو ڈنٹ کی حیثیت سے جا ئیگا۔ادھر کلا س میں غیر حا ضر اور امتحان میں فیل طلبہ کی ساری کارکردگی ا سا تذہ کے نامۂ اعمال میں لکھ دی جاتی ہے۔کیا اس طر ح کے غیر اخلاقی رویوں اور کا غذی ڈیزائن سے ہم بحیثیت مجموعی ترقی یا فتہ اقوام عا لم میں شامل ہو سکیں گے ۔ یہ محض ایک دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے مگر حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتا۔ قا نون قدرت کو دیکھیں کہ اللہ تعالی نے قومو ں کی تعمیر میں معلم کو مرکزی حثیت دی ہے۔ پھر نصاب ،بعد میں طالب علم کا درجہ بتا یا گیا ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلا م کی وہ دعا قر آن مجید میں ملا حظہ فر ما ئیں ۔’’ اے ہما رے رب انہیں میں سے ایک رسول مبعو ث فرما جو ان پر تیری آیات تلاوت فرما ئے،اور ان کا تزکیہ کرے،اور انہیں کتب کی تعلیم دے،اور انھیں دا نا ئی کی با تیں سکھائے ۔‘‘ آپ اس بات کا جا ئزہ لیں کہ سکو لو ں میں نصاب تعلیم مذکو رہ بنیا د فر اہم کر رہا ہے۔ آپ روزا نہ کی بنیاد پر سر کاری مشینری کو دفاتر میں اور اس سرکاری نصاب کے دیگر تعلیم یا فتہ افراد کی گفتا ر اور اخلاقی رو یو ں کو اسمبلی سیشن اور دیگر معاملات سے دیکھ کر اندا زہ لگا سکتے ہیں لیکن اس کے بر عکس علماء میں ابھی تک بہر حال ایک دو سرے کا ا حترام ابھی تک مو جود ہے اصل بات یہ ہے کہ نصاب تعلیم میں اخلاقی تر بیت کا فقدان ہے۔تربیتی نظام کا نہ ہو نا، ارباب علم و دانش پر واضح ہے کہ یہ ادارے فقط تعلیمی ادارے نہیں ہیں بلکہ تعلیمی و تربیتی ادارے ہیں۔ ایک تعلیمی ادارے میں تعلیمی نظام بدن کی جبکہ تربیتی نظام روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ فرض کیا کہ تعلیمی نظام کے حوالے سے ان اداروں کے پاس کسی حد تک ایک لائحہ عمل موجود ہے لیکن تربیتی حوالے سے لیکچرز کو ہی کافی سمجھ لیا گیا ہے پھر زیادہ سے زیادہ اخلاقی دروس کا اہتمام کر کے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ طالبعلموں کی تربیت ہو رہی ہے حالانکہ تربیت ،فکری سے بڑھ کر عملی چیز کا نام ہے۔ مگر ہمارے ان تعلیمی اداروں کے اکثر اساتذہ کرام روز مرہ کی مشکلات کا حل ٹیوشن کو قرار دے کر اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے پاس طلبہ کیلئے تربیت کا کوئی عملی نمونہ نہیں ہوتا۔ اس عملی نمونے کی غیر موجودگی کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ طلبہ رٹے ہوئے اسباق کو عملی زندگی کی بے رحمی کا شکار ہو کر بھول جاتے ہیں اور پھر ان میں اور جہلاء میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔
یہ فیضا ن نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھا ئے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
سکھا ئے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
Dec 08, 2020