ارمغان نعیم خان
پاکستان نیوی ۔ مملکتِ خدا دادِ پاکستان کی سمندری حدود کی نگہبان ہے۔ یہ مقدس فریضہ پاک بحریہ کے جانباز قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک بے مثال جانفشانی سے انجام دے رہے ہیں۔ ستاسٹھ سال کا یہ سفر خاصہ کٹھن اور تاریخ ساز ہے۔ اس میں سرفروشی و جانبازی کی داستانیں بھی موجود ہیں اور اعلیٰ پیشہ ورانہ معیار کے حصول کا بیان بھی۔ یہاں وطنِ عزیز کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرنے والے مجاہدوں کا ذکر بھی ہے اور ہمہ وقت جنگی تیاری کا قصہ بھی ۔تاریخ شاہد ہے کہ وقت پڑنے پر پاک بحریہ کے جانبازوں نے ہمیشہ لبیک کہا اور وطنِ عزیز کی لاج رکھی۔ 9دسمبر1971 ایک ایسا ہی تاریخ ساز دن تھا جب پاک بحرہہ کی آبدوز پی این ایس/ایم ہنگور اور اس کے عملے نے بھارتی جنگی جہاز آئی این ایس کُکری پر زیرِ آب کاری ضرب لگا کر اسے غرقاب کر دیا تھا۔
قدیم یونانی دیو مالائی داستانوں میں ڈیفنی"Daphne"ایک نہایت حسین و جمیل دیوی کا نام تھاجو آبشاروں اور چشموں سے پھوٹنے والے صاف پانی میں رہا کرتی تھی ۔ یونانی شاعر"Ovidius"کے کلام میں ڈیفنی کا کافی ذکر ملتا ہے جو حسن اور خوبصورتی کی علامت تھی۔ مگر آج جس ڈیفنی کا ذکر یہاں کریں گے وہ بھارتی بحریہ کے لیے حسن و خوبصورتی کی نہیں ، بلکہ قہر و غضب کی علامت ثابت ہوئی ۔ S-131 پی این ایس/ایم ہنگور،پاک بحریہ کی وہ عظیم اور تاریخ ساز جنگی آبدوز تھی جس نے 1971کی جنگ کے دوران زیر آب کاری ضرب لگا کر بھارتی بحریہ کے جنگی جہاز آئی این ایس کُکری کو اس کے عملے سمیت غرقاب کر دیا تھا۔ پی این ایس/ایم ہنگور فرانسیسی ساخت کی ڈیفنی کلاس"Daphne class"آبدوز تھی جو اپنی ہم ساخت آبدوزوں پی این ایس/ایم شو شک اور پی این ایس/ایم مانگرو کے ہمراہ -1965 1971کے عرصے میں پاک بحریہ کا حصہ بنی ۔تارپیڈو اور دیگرزیر آب کارآمد جنگی آلات سے لیس یہ اپنے دور کی جدید اور مہلک آبدوزیں تھیں ۔ ان آبدوزوں کے پاک بحریہ میں شامل ہونے سے پاک بحریہ کی زیر آب حربی صلاحیت یکلخت کئی گناہ بڑھ گئی تھی ۔ ادھر نئی دہلی میں بھارتی بحریہ کے ہیڈ کواٹر میں کھلبلی مچی ہوئی تھی ۔ بھارتی بحریہ کی قیادت کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح پاکستانی آبدوزوں سے اپنے بیڑوں کو محفوظ رکھیں ۔ یہی وجہ تھی بھارتی بحری بیڑے بحر ہند میں نکلنے سے خوف کھانے لگے تھے۔
1971کے آخری مہینوں میں مشرقی پاکستان کے حالات نہایت کشیدہ ہو چکے تھے۔ بھارتی جارحیت عروج پر تھی اور بھارتی خفیہ ایجنسیاں تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ٹولوں کو اسلحہ سے لیس کر کے متواتر مشرقی پاکستان میں داخل کیے جا رہی تھیں ۔ کسی بھی لمحے باقاعدہ جنگ کا اعلان متوقع تھا۔ پاک بحریہ اپنی پوری جنگی تیاری کے ساتھ دشمن سے نمٹنے کے لیے تیار تھی۔ 20اور21نومبر1971ءکو قوم عید الاضحی کی خوشیاں منا رہی تھی مگر پاک بحریہ کے جانباز اپنی تیاری میں مصروف تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ نازک وقت خوشیاں منانے کا نہیں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب ہنگورکو روانگی کا حکم ملا توہنگور کا تمام عملہ بلا کسی تاخیر ڈیوٹی پر آن موجود ہوا۔ روانگی سے قبل عملے کے ہر رکن نے اپنے عزیز و اقارب کو الوداع کیا۔ عملے کے ارکان اور ان کے گھر والوں کے دلوں میں یہ احساس بخوبی عیاں تھا کہ شاید یہ ان کی آخری ملاقات ہو۔ بحر حال نہ تو جذباتی احساسات کی بندشیں ان جانبازوں کو روک پائیں اور نہ ہی ان نازک لمحات کی باز گشت ان کے ارادوں کومتزلزل کر سکی۔
22نومبر کو پی این ایس /ایم ہنگور سمندر کی دبیز تہوں تلے اپنے مشن پر روانہ ہو گئی ۔ ساحل چھوڑنے کے بعد ان آبدوزوں کا زمینی دنیا سے رابطہ کٹ چکا تھا۔ اس کے بعد رونما ہونے والی کسی بھی صورت حال سے انہیں خود ہی نمٹنا تھا۔ کمانڈر احمد تسنیم (بعد ازاں وائس ایڈمرل احمد تسنیم ،ہلال امتیاز (ملٹری)،ستارہ جرأت بار، ستارہ بسالت)کی زیر قیادت ہنگوراپنی ذمہ داری کے علاقہ میں نگرانی کر رہی تھی کہ 2دسمبر کی رات کو اس کے عملے کو دشمن کے جہازوں کی موجودگی کاعلم ہوا۔دشمن کے بحری جہاز ہنگور کی زد میں تھے اگر ہنگور کا عملہ چاہتا تو چند لمحوں میں بھارتی بحریہ کے ان جہازوں کو نیست و نابود کر سکتا تھا۔ مگر ہنگور کے عملے کو پہل کرنے کی اجازت نہ تھی ۔ گو کہ دشمن کو سبق سکھانے کا ایسا سنہرا اور نادرموقع ہاتھ سے جانے پر عملے کو بہت بے چینی ہوئی مگر حکم عدولی کا تصور ہی نہ تھا۔لہٰذا پاک بحریہ کے اس ذمہ درانہ رویے کے باعث بھارت کے بحری جہاز فنا ہونے سے بچ گئے۔
اسی دوران جنگ کا باقاعدہ اعلان ہو گیا اور ہنگور کو دشمن کو نشانہ بنانے کی اجازت مل گئی ۔ بس پھر کیا تھا۔تما م عملہ دن رات اس انتظار میں تھا کہ اب دشمن کا کوئی جہاز اس طرف آئے تو اس پر بھر پوراور کاری حملہ کیا جائے۔لیکن انتظار کے لمحات ہمیشہ طویل ہو جاتے ہیں ۔ بالآ خر9دسمبر1971کو علی الصبح انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور دشمن کے دو جہاز وں کی موجودگی کے اشارے ملنے لگے۔ یہ دونوں جہازبھارتی بحریہ کے آبدوزشکن جہاز آئی این ایس کرپان اور آئی این ایس کُکری تھے۔ جو آبدوزوں کی تلاش کر رہے تھے۔ تا ہم ہنگور کے عملے نے کسی جلد بازی کا مظاہرہ کیے بغیردوپہر تک ان جہازوں کا پیچھا کیا۔ بھارتی جہازوں کے علم میں لائے بغیرہنگور ان جہازوں سے اپنا فاصلہ بتدریج کم کرتی چلی گئی۔ بھارتی جہاز زیر آب چھپی اپنی اس موت سے بے خبرتھے۔ جس کا شکنجہ آہستہ آہستہ ان کے قریب ہوتا جا رہا تھا۔ ہنگور کے عملے کو بخوبی علم تھاکہ گو ہنگور کو بے خبری میں حملہ کرنے کی بر تری تھی لیکن اگر ہنگور کا وار خالی گیا تو صورت حال بالکل بد ل جائے گی اور ہنگور کے لیے بچنا مشکل ہوگا۔
بالآخر سات بج کر ستاون منٹ پر مناسب موقع جانتے ہوئے کمانڈر احمد تسنیم کے حکم پر ہنگور کے تار پیڈوافسر لیفٹیننٹ وسیم احمد(بعد ازاں کموڈور وسیم احمد) نے پہلا تارپیڈو فائر کیا جس کا ہدف آئی این ایس کرپان تھا۔ تارپیڈو فائر کرنے کے بعد اس کی حرکت سونار کے ذریعے لگاتار معلوم کی جا رہی تھی۔ تارپیڈو تیزی سے اپنے ہدف کی جانب رواں تھا۔ ہدف پر پہنچ کر تارپیڈو آئی این ایس کرپان کے نیچے سے گزرتا ہوا گے نکل گیا۔ اس حملے کا نقصان یہ ہوا کہ کرپان کے عملے کو ہنگور کی موجودگی اور حملے کا علم ہوگیاجس کے باعث انہوں نے فوراً جہاز کی پوزیشن تبدیل کر لی۔ اسی دوران کُکری بھی ہنگور کی پوزیشن کو جان گیا اور ہنگور پر حملہ کرنے کیلئے اس کی جانب بڑھا۔ مگر ہنگور نے عملے نے بلا خوف ، نہایت اطمینان سے کُکری پر نشانہ لگایا اور دوسرا تارپیڈو فائر کر دیا۔ تارپیڈو فائر کرنے کے بعد عملہ دم سادھ کر مضطرب بیٹھ گیا۔ اگلے چند منٹ عملے کو صدیوں کے برابر محسوس ہوئے۔ ادھر تارپیڈواپنی جانب بڑھتا دیکھ کر کُکری کے عملے کے اوسان خطا ہو گئے اور انہوں نے فرار ہونے کی بھرپور کوشش کی مگر تارپیڈو نے انہیں جالیا۔ تارپیڈو کُکری کے نیچے عین میگزین کو ہِٹ (Hit) کرنے کے ساتھ ایک بہت بڑے دھماکے سے پھٹ گیا۔ یہ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ زیر آب ہنگور کے عملے تک کو بخوبی سنائی دیا۔ بھارتی بحریہ کے سمندری برتری کے سب دعوے سمندر کی نذر ہو گئے اور دو منٹ کے اند ر اندر عملے کے 194 ارکان سمیت بھارتی بحری جہازکُکری غرقاب ہو گیا۔
کُکری کو غرقاب ہوتا دیکھ کر کرپان کے عملے پر شدید لرزہ طاری ہو چکا تھا۔ اسی دوران ہنگور نے کرپان پر ایک تیسرا تارپیڈو فائر کیا۔ بس پھر کیا تھا، کرپان نے فرار ہونے کی کوشش کی۔مگر ہنگور کے تارپیڈو نے کرپان کو شدیدنقصان پہنچایا جس کے سبب اس نے 1971کی جنگ کابقیہ سارا وقت سمندر سے باہر گزارا۔ اس کے بعد اگلے چار روز بھارتی بحریہ نے بحری اور ہوائی جہازوں سمیت تمام تر ممکن ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے ہنگور کو ڈھونڈنے کی سر توڑ کوشش کی ۔ بھارتی بحریہ نے ٹنوں کے حساب سے آبدوز شکن بم سمندر میں پھینکے ۔مگر ہنگور اپنا کام کر چکی تھی اور بھارتی سورماﺅں کی پہنچ سے بہت دور جا چکی تھی ۔ ہنگور اگلے چند دن بھارتی بحریہ کو چکمہ دینے کے بعد باآسانی واپس کراچی پہنچ گئی جہاں اس کے عملے کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہ پہلا موقع تھا جس میں ایک لڑاکا بحری جہاز آبدوز کا نشانہ بنا تھا۔
ہنگور اپنی سروس مکمل کرنے کے بعد جنوری2006 میں ریٹائر ہوگئی۔ پاک بحریہ کی اعلیٰ قیادت نے یہ فیصلہ کیا کہ اس آبدوز کو اس کے انمول جنگی کارنامے کے پیشِ نظر تاریخی ورثہ قرار دیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں اس عظیم کارنامے کو یاد رکھیں جو ہنگور سے وابسطہ ہے۔ پاک بحرہہ کےMaritime Museum میں محفوظS-131 پی این ایس ہنگور ہر آنے والے کو عظمتِ رفتہ کی یاد دلاتی رہتی ہے۔
بحرِ ہند کی تہہ میں موجود آئی این ایس کُکری کا تباہ شدہ زنگ آلود ملبہ اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ ہم اپنے ملک کی طرف بری نگاہ ڈالنے والوں کی آنکھیں نکال دیا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ پاک بحریہ کی جانب سے ایک واشگاف اعلان بھی ہے کہ اگر آئندہ کسی نے ہماری جانب بُری نظر اٹھائی تو اس کا انجام بھی ایسا ہی ہوگا۔