گورنر سرور کھڈے لائن نہیں فرنٹ لائن پر

ادھر گورنر سرور پاکستان کے بہترین مفاد کی لابنگ کے لیے  ملک سے برٹش اور یورپی پارلیمنٹ  کے ارکان سے جی ایس پی پلس کے لیے ملاقاتیں شروع کیں تو ادھر افواہ ساز  فیکٹر یز  زور شور سے ان کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف ہو گئیں ۔میرے مر شد مجید نظامی نے اخبار نویسوں کی ایک نئی صنف دریافت کی تھی جسے انہوں نے لفافہ بردار صحافت کا نام دیا تھا ۔یہ لفافہ بردار صحافی آپ کو ہر جگہ سرگرم عمل نظر آتے ہیں ۔گورنر سرور نے لندن اترتے ہی صحافیوں کے ایک گروپ سے ملاقات کی ،تو کسی نے سوال داغا کہ سنا ہے آپ کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے گورنر نے جواب دیا مجھے اس لفظ کا علم پاکستان کی سیاست میں داخل ہونے کے بعد ہوا ۔لفافہ میڈیا نے ٹکر چلا دیے کہ گورنر سرور نے تسلیم کر لیا ہے کہ انہیںکھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔گورنر سرور سال میں ایک مرتبہ جی ایس پی پلس کی لابنگ کے لیے برطانیہ اور یورپ ضرور جاتے ہیں اس مرتبہ روانگی سے ایک روز قبل انہوں نے مجھے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا تو انہوں نے اپنے خصوصی کلما ت میں اس بات کا ذکر کیا کہ وہ بیرونی دورے پر نکل رہے ہیں انہوں نے بڑے تیقن سے کہا کہ پاکستان کو جی ایس پی پلس کا سٹیٹس حاصل ہوچکا ہے اور میں یہ آپ لوگوں کے توسط سے قوم کو خوشخبری سنا رہا ہوں ۔جی ایس پی پلس کے فوائد معلوم کرنے ہوں تو فیصل آباد کی ٹیکسٹائل ملوں میں جاکر معلوم کریں کہ وہ جی ایس پی پلس کی وجہ سے کس طرح دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں اور دونوں ہاتھوں سے منافع کما رہی ہیں ۔کسی دوسرے شہر کی ٹیکسٹائل مل میں بیس ہزار ماہوار کی تنخواہ لینے والا ہنرمند جب اپنے مالک کے ہاتھ میں استعفیٰ پکڑاتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اسے فیصل آباد کی ٹیکسٹائل مل میں اسی ہزار کی نوکری مل گئی ہے ۔ پروفیسر سید محفوظ قطب بتاتے ہیں کہ فیصل آباد کے ٹیکسٹائل  مالکان کے گھروں میں کچن کی سبزی لانے والی گاڑیاں بھی امپورٹڈ ہیں  اور ان کے تہہ  خانوں میں لینڈ کروزروں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور ان کے عالی شان بنگلے دیکھنے کے لائق ہیں ۔ یہ سارے ثمرات جی ایس پی پلس کی وجہ سے ہیں ۔اور اس اسٹیٹس کو حاصل کرنے اور برقرار رکھنے کا سہرا چوہدری سرور کے سر سجتا ہے۔بلاشہ یورپی پارلیمنٹ کے پاکستانی ارکان بھی ان کوششوں میں برابر کے شریک ہیں ۔
چوہدری سرور نے کھڈے لائن زندگی ضرور گزاری ہے اور یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ نئے نئے اسکاٹ لینڈ پہنچے تھے اور سر پر انڈوں کی ٹوکری رکھ کر محلے کی دکانوں میں سپلائی کیا کرتے تھے اس وقت انہیں سرور آنڈے والا کہا جاتا تھا۔محمد سرور کو اس شبانہ روز محنت پر کوئی شرم نہیں بلکہ فخر ہے کہ انہوں نے حلال کی روزی کمانے کا راستہ اختیار کیا۔محمد سرور نے اتنی بڑی کیش اینڈ کیری کھڑی کی کہ کوئی شخص ایک دن میں اس کی ساری اشیا ء پر نظر بھی نہیں ڈا ل سکتا تھا ۔میں پہلی بار گلاسگو گیا تھا تو محمد سرور مجھے اپنی کیش اینڈ کیری دکھانے لے گئے ہم شیلفوں کے دمیان گھوم رہے تھے اور جب میری پنڈلیوں میں کھلیاں پر گئیں تو میں نے کہا باقی چیزیں پھر کبھی دیکھ لیں گے ۔
محمد سرور کے عزائم بلند تھے وہ چند کلیوں پر قناعت کرنے والے شخص نہیں تھے انہوں نے فلاحی اور سیاسی میدان میں قدم رکھا ۔تو کامیابیاں ان کے قدم چومتی چلی گئیں ۔پوری دنیا میں وہ پہلے مسلمان شخص ہیں جو کسی بھی غیر اسلامی ملک کی پارلیمنٹ کے ممبر بنے بلاشبہ ان کے خلاف سازشوں کا تانہ بانہ بنا گیا ۔اور
 میرے لیے صد مے کی بات یہ ہے کہ ان کے خلاف جس اخبار نویس نے گند اچھالا وہ پاکستانی نسل سے تعلق رکھتا تھا۔ محمد سرور کے لیے یہ ایک بڑا کڑا وقت تھا ،پوری غیر اسلامی دنیا ان کے خلاف برسر پیکار تھی اور ان کا دفاع کرنے والا کوئی نہ تھا اس موقع پر ان کی بیگم نے میرے سوال پر یہ کہا تھا کہ اللہ خیر کرے گا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ محمد سرور اور ان کے خاندان کو خدا پر کامل بھروسہ تھا۔ محمد سرور اس آزمائش سے سرخرو نکلے اور ایک بار نہیں تین مرتبہ برٹش پارلیمنٹ کے ممبر بنے ۔محمد سرور نے فلسطینی مسلمانوں کے لیے جد و جہد کی اور بلند بانگ طریقے سے فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے جنگ لڑی ۔اس مقصد کے لیے وہ بار بار فلسطین آتے جاتے رہے ۔محمد سرور پاکستان بھی آئے اور برٹش پارلیمنٹ کے چند ایسے ارکان کو بھی ساتھ لائے جو پاکستان کی کشمیر کاز کے سرگرم حامی تھے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت ایک کشمیری پاکستانی وزیر اعظم تھا لیکن اس نے برطانوی پارلیمنٹ کو وقت دینے سے انکار کردیا تھا۔ان دنوں سید مشاہد حسین وزیر اطلاعات تھے میں نے ان کو دوستانہ دھمکی دی کہ آپ کا وزیر اعظم برطانوی پارلیمنٹ کے کشمیر وفد کو وقت نہیں دے رہا اس کا آپ مطلب اچھی طرح جانتے ہیں ۔مشاہد حسین دانشمند شخص تھے انہوں نے اگلی صبح ناشتے پر محمد سرور اور وزیر اعظم کی ملاقات کروا دی ۔اسی دورے میں محمد سرور کراچی پہنچے تو گورنر ممنون حسین ان کے لیے سراپا انتظار تھے ۔سندھ کے وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ اسلام آباد تھے انہوں نے پیغام دیا کہ محمد سرور میری واپسی تک کراچی ٹھہریں میں خصوصی جہاز سے واپس آرہا ہوں اور ان سے ملاقات کے بعد ان کو خود رخصت کرنے کراچی ایئر پورٹ جائوں گا۔ میں اس دورے میں محمد سرور کے ساتھ تھا ہم واپس اسلام آباد آئے تو کارگل کی وجہ سے اسلام آباد میں افوائوں کا بازار گرم تھا ۔آئی ایس آئی والے الگ بے تاب تھے کہ گورنر سرور کارگل پر ان کا موقف ضرور سنیں آئی ایس پی آر کے سربراہ جنرل راشد قریشی نے بھی مجھے سے رابطہ قائم کیا کہ میں محمد سرور کو ان کے پاس لے کر آئوں وہ کارگل پر انیس بریفنگ دینا چاہتے ہیں اور اس بریفنگ کے بعد آرمی چیف کی گاڑی انہیں جنرل مشرف کے پاس لے جائے گی یہ سب مناظر میری آنکھوں کے سامنے رونما ہوئے۔ 
محمد سرور دورہ مکمل کر کے واپس گئے تو چند روز بعد مارشل لاء نافذ ہوگیا اور نواز شریف کو کسی نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ۔محمد سرور ایک مرتبہ پھر خصوصی مشن پر پاکستان آئے تو پہلے شخص تھے جنہوں نے نواز شریف کے ساتھ ان کے سیف ہائوس میں ملاقات کی ۔
 محمد سرور نئے جہانوں کی تلاش میں رہتے ہیں ،وہ کہکشائوں کے راہی تھے اور قوس قزح کے رنگوں کے تعاقب میں رہتے ہیں۔کسی لمحے انہیں خیال آیا کہ انہیں پاکستانی سیاست میں حصہ لینا چاہیے وہ دھوم دھام سے وطن واپس آئے ن لیگ جوائن کی اور اس کی ٹکٹوں کی تقسیم کے پینل میں سر گرم کردار ادا کیا ۔ن لیگ نے انہیں گورنر پنجاب لگایا مگر چوہدری سرور کسی بندھن کا شکار نہیں ہوسکتے تھے انہوں نے رسہ تڑوایا اور گورنری چھوڑ دی ۔پھر وہ پی ٹی آئی کی سیاست کا حصہ بنے وہ فرنٹ فٹ پر کھیلنے کے عادی  تھے
 اور فرنٹ لائن میں سینہ تان کر لڑنا ان کی زندگی کا شیوہ تھا وہ فرنٹ لائن مورچے میں ڈٹے ہوئے ہیں ان کو کھڈے لائن لگانے والے حسرتوں کا شکار ہیں ۔چوہدری سرور نت نئی امنگوں سے سرشار ہیں ان کے ہاتھ میں شمشیر آب دار ہے اور وہ سیاسی معرکے سر کرنے میں مصروف عمل ہیں۔کوئی ہے جو سامنے آئے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن