ترکی نے صدیوں ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے مسلم دنیا کی قیادت کرتے ہوئے عالمی سطح پر بھرپور قائدانہ کردار ادا کیا، امتدار زمانہ کے ساتھ عالمی سازشوں اور داخلی کمزوریوں کی وجہ سے 1923 میں عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوا اور ترکی ایک جدید جمہوریہ قرار پایا، بد قسمتی سے مصطفے کمال اتا ترک اور اُسکے جانشینوں نے ترکی کے خمیر سے اسلامی تہذیب و تاریخ سے لا تعلقی کرتے ہوئے جدید ترکی کو مغربی تہذیب اور اقدار کا گہوارہ بنانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں ترک سماج اور حکمران قیادت کے درمیان ایک کشمکش شروع ہوئی بار بار مارشل لاء لگتا رہا اور ترکی عدم استحکام کا شکار رہا ، اس کشمکش میں عدنان میندرس جیسے ہردلعزیز وزیراعظم کو پھانسی گھاٹ میں لٹکا دیا گیا، جس نے ترکی کو عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے دوبارہ اسلامی تہذیب و اقدار کی طرف راجع کیا ، اس کشمکش میں جہاں سعید نورسی کی تحریک اور نقشبندی سلسلہ تصوف نے اسلامی اقدار کے تحفظ کیلئے اہم کردار ادا کیا وہیں سیاسی سطح پر عدنان میندرس کے بعد ترگت اوذال نے بطور صدر جمہوریہ اپنے دور میں اہم پیش رفت کی لیکن سب سے زیادہ متحرک کردار پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان نے ادا کیا جنہوں نے ایک یونیورسٹی پروفیسر کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اساتذہ کرام ، اہل دانش اور اپنے شاگردوں کی چند سال کے اندر ایک ایسی ٹیم تیار کی جو آگے چل کر ان کی سیاسی پیشقدمی کا ذریعہ بنی، انہوں نے ستر کی دہائی میں اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا ، وہ قونیا سے ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے ملی سلامت پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت قائم کی جو اپنے دور کے دو بڑے متحارب رہنمائوں سلیمان ڈیمرل اور بلند ایجوت کے ساتھ باری باری حکومتی حلیف بنتے ہوئے اپنی بہترین کارکردگی کے نتیجے میں ایک قومی رہنما کی حیثیت سے ابھرے۔ جو ترکی کے اسلامی خمیر و ضمیر کا صحیح ترجمان ثابت ہوئے، اتحادی حکومتوں میں محدود کردار ملنے کے باوجود ان کی ٹیم نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ، ریاستی سطح پر تعلیم و صحت ، معیشت ، صنعتی ترقی اور شفافیت کے ساتھ بالبصیرت اور مخلصانہ قیادت کے ذریعے ترک قوم کو گھمبیر مسائل سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کیا، اسی طرح قبرص میں ترکوں پر یونانی حکومت کے مظالم اور امتیازی سلوک سے نجات دلانے کیلئے وزیراعظم بلند ایجوت سے ملکر ایک دلیرانہ فوجی کاروائی کا اہتمام کیا جس کے نتیجے میں ترک قبرص آزاد ہوا اور یونانیوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ ہو گیا،یہ ایسا دلیرانہ فیصلہ تھا جس کے نتیجے میں ڈاکٹر اربکان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا، اگر بروقت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات منعقد ہوتے تو یقینا اربکان صاحب کی جماعت ایک بڑی جماعت کی حیثیت سے ابھرتی، لیکن بد قسمتی سے فوجی جنتا نے تعلیمی اداروں میں فسادات کرواتے ہوئے امن عامہ کی بحالی کے نام پر مارشل لاء نافذ کردیا اور اُنکی جماعت پر پابندی عائد کر دی بعد میں انھوں نے فضلیت پارٹی کے نام سے نئی جماعت قائم کی اس پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ، نوے کی دھائی میں انہوں نے رفاہ پارٹی کے نام سے ایک اور نئی پارٹی قائم کی ابھی یہ پوری طرح منظم بھی نہ ہو پائی تھی کہ انتخابات منعقد ہو گئے جس میں دس فیصد ووٹ حاصل نہ کر سکنے کی وجہ سے یہ پارلیمانی پارٹی نہ بن سکی البتہ پورے ترکی میں ایک اچھی ٹیم کو متعارف کروانے میں کامیاب رہے۔ محترم قاضی حسین احمد رحمتہ اللہ علیہ کی قیادت میں ایک کل جماعتی پارلیمانی وفدنے مئی 1990ء میںمسلم دنیا کا دورہ کیا بحمداللہ راقم بھی اس دورے کا حصہ تھا ، ہمارا پہلا پڑائو ترکی تھا جہاں پروفیسر نجم الدین اربکان صاحب مرحوم نے حکومتی اورعوامی سطح پربڑے تاریخی پروگرموں کا انعقاد کرایا ، صدر ترگت اوذال، وزیر اعظم بلندیلدرم سے لیکر سنیئر اپوزیشن رہنمائوں سلیمان ڈیمرل، بلند ایجوت، ترکی کے وزیر خارجہ، پارلیمنٹ کی امور خارجہ کی کمیٹی سے بڑی مفید ملاقاتیں ہوئیں، علاوہ ازیں 29 مئی یوم فتح قسطنطنیہ کے موقع پر نجم الدین اربکان نے بڑے اہتمام سے قومی دن کی حیثیت سے بنانے کا اہتما م کیاکہ ترک قوم کو اپنا مجاہدانہ کردار یاد دلاتے ہوئے یہ باو رکرایائے جائے کہ کس طرح 19 سالہ جذبہ جہاد سے سرشار ہوکر محمد فاتح نے خشکی پر کشتیاں چلاتے ہوئے بازنطین ایمپائر کے مرکز قسطنطنیہ کو فتح کر کے اسے اسلام بول بنا دیا جو رفتہ رفتہ استنبول کہلانے لگا،اسی نسبت سے ترکی کے ساحلی شہر عدانہ میں عظیم الشان پروگرام منعقد ہوا جس میں محترم قاضی حسین احمد مرحوم اور ان کے وفد کا تاریخی استقبال کیا گیا، بلاشبہ یہ لاکھوں کا پر جوش مجمع مجاہد اربکان مجاہد قاضی کے نعروں سے گونج اُٹھا ، اس موقع پر قاضی صاحب نے تمام اسلامی تحریکوں کی نمائندگی کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک پر جوش اور جامع خطاب کیا ، اسکے بعد استنبول کے چیمبر آف کامرس کے تحت ایک عظیم الشان استقبالیہ منعقد ہوا جس کے میزبان رفاہ پارٹی استنبول کے صدر اور موجودہ صدر ترکی جناب رجب طیب اردگان تھے، اس اجتماع میں بھی جہاں مرحوم قاضی حسین احمد صاحب اور پروفیسر خورشید احمد صاحب نے پاکستان اور مسلم دنیا کے لیے اسکی اہمیت اور بھارت کے مسلم دنیا کے حوالے سے جارحانہ عزائم کا احاطہ کیا ، ترکی کی حکومتی اور عوامی سطح پر پزیرائی کے نتیجے میں مسلم دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہمارے وفد کی عزت افزائی ہوئی یوں 1965ء کے بعد حکومتی اور عوامی سطح پر یہ پہلی سفارتی مہم تھی جس کے نتیجے میں اسی برس قاہرہ میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے منعقدہ اجلاس میں طویل عرصہ کے بعد پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کے لیے حق خود ارادیت کے حصول کا اعادہ کیا گیا، کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی مذمت کی گئی اور عالمی برادری سے مطالبہ کیاگیا کہ وہ اس میں اپنا کردار ادا کرے۔ جاری)