معاشرے میں رونما واقعات کو سچائی کے ساتھ عوام کے علم میں لانے والے حق اور سچ کے علمبردار صحافی دورِ حاضر میں غاصب اور استحصالی قوتوں کے نشانے پر ہیں استحصالی قوتیں مجرمانہ پس منظر کے حامل افراد کے ذریعے سچائی کا گلہ دبوچ کر حق کی آواز کو خاموش کرا دیتے ہیں، صحافیوں کے قتل کے اعدادو شمار انتہائی تشویشناک ہیں جو کہ ایشیا پیسیفک خطے میں ہونے والی کل اموات کا چالیس فیصد بنتا ہے صرف برصغیرپاک وہند میں صحافیوں کے قتل کی تعدادپاکستان میں 138 جبکہ ہندوستان میں 116 ہیں جو کہ 1990 ء کے بعد ہر سال ہلاک ہونیوالوں کی فہرست میں شامل ہوتے رہے ہیں ۔پاکستان میں مرد اور خواتین کی ریکارڈ شدہ ہلاکتوں کی تعداد پر یونیسکو نے سال 2021 ء کے اعدادو شمار پر گذشتہ چار سالوں میں عدالتی جائزے پر مشتمل اپنی تفصیلی رپورٹ میںمعلومات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ زیادہ تر مقدمات میں کسی قسم کی کوئی بھی پیش رفت نہیں ہوئی جو کہ قابل ِمذ مت ہیں جن میں مرد صحافیوں کی تعداد 83 اور 2 خواتین صحافی ہیں ، انٹر نیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے گلوبل جرنلزم پر وائٹ پیپر میں پاکستان اور ہندوستان سمیت پانچ ممالک کو دنیا میں صحافت کیلئے خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے۔پاکستان میں زیادہ تر صحافی ہدفی نشانہ بنے جبکہ چند ایک کو کراس فائرنگ کے زمرے میں لا کر ان کے اہل ِ خانہ کو قانونی چارہ جوئی سے محروم کیا گیا،جیسا کہ ابھی کچھ ہی دن پہلے فکشن ہائوس کے سربراہ ظہور احمد خان کے بیٹے ذیشان کو جین مندر اور مزنگ علاقے کے درمیان گولی سے نشانہ بنایا گیا اور پولیس نے اسے دو گرہوں کے درمیان کراس فائرنگ کا رنگ دے دیا ، ذیشان کا بھائی تھانے پوسٹمارٹم رپورٹ لینے گیا تو پولیس کا برتائو انتہائی کرب میں مبتلا کر دینے والاتھا ، مرحوم کے کپڑے ،جوتے اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کا تقاضہ کرنے پر پولیس اہلکار نے انتہائی سفاکی سے کہا کہ یہ سب آپ نے کیا کرنے ہیںایک اتفاقی حادثہ ہوا آپ کا بھائی کراس فائرنگ میں مارا گیا ، دو گروپ آپس میں فائرنگ کر رہے تھے ، اس میں آپکے بھائی کی قسمت خراب تھی کہ وہ وہاں سے گزر رہا تھا ، آپ اسکے کپڑے ،جوتے اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کاکیا کریں گے، جائیں اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا کریں ۔
میں کویت تھا کہ مجھے ذیشان ظہور کے قتل کی خبر ملی پہلی خبر عباس شاد دارالشعور پبلیشر کے سربراہ کی توسط سے ملی، دوسری انکی بیوی کے بھائی نے انتہائی دکھ اور کرب کا اظہار کرتے ہوئے ذیشان ظہور کے قتل پر لکھنے کی استدعا کی، میں ہفتے کی صبح پاکستان پہنچا آتے ہی چوہدری ظہور احمد خان صاحب سے رابطہ کیا جو کہ ابھی تک غم میں نڈھال ہیں، اپنے بیٹے کیلئے حکامِ بالا سے انصاف کی امید لئے ہر دروازے کو کھٹکا رہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہم تو ادب کی اشاعت اور کتاب کلچر کو پھیلانے کے داعی ہیں ہمارا دشمنی قتل و غارتگری سے کیا تعلق یہ غلط ہے کہ میرا بیٹا دو گروہوں کے درمیان گولیوں کے تبادلے میں نشانہ بنا اسے ہدف بنایا گیا اور ایک نہیں دو گولیاں اس وقت ماریں جب وہ گھر سے اپنے بھائیوں اور دوست کیلئے کھانا لے کر فکشن ہائوس اپنے دفتر جارہا تھا کہ اسے ہدف بنا کر گولیاں ماری گئیں ،ذیشان کا جسدِ خاکی بیچ سڑک کے پڑا رہا اسکے منہ کوایک چھوٹا سے کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا پولیس نے میرے بچوں کے ساتھ لاوارثوں جیساسلوک کیا۔قطع نظر اسکے کہ پولیس کا رویہ افسوسناک رہا لیکن پولیس کے محکمے کے ہی ایک نیک دل اورادبی شخصیات سے انس رکھنے والے افسر ڈی آئی جی آپریشن شہزادہ سلطان نے ظہور احمد خان سے انکی رہائش گاہ پہنچ کر انکے بیٹے کیلئے دعائے خیر کی اور ممکنہ تعاون کی یقین دہانی کروائی، ظہور خان اس یقین دہانی کو ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ملنے کی امید تصور کرتے ہیں ۔
چوہدری ظہور احمد سربراہ فکشن ہائوس مجھ سے بات کرتے ہوئے اپنے جذبات کوقابو میں نا رکھ سکے بیٹے کے غم میں انکی امید کا محور اب صرف چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ہیں، انہیں قوی امید ہے کہ چیف جسٹس صاحبان از خود نوٹس لے کر بوڑھے باپ اور ذیشان ظہور کے بچوں کو انصاف دلائیں گے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دیںگے۔
قتل کی کسی شکل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا پولیس کا ذیشان ظہور کے قتل سے متعلق موقف کہ دو گرہوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں ذیشان ظہور بد قسمتی سے آ گیا قابل تشویش و مذمت ہے ، ایسی سوچ معاشرے میں لا قانونیت کو پروان چڑھانے کی موجب بنتی ہے ، اس انتہائی فکر انگیز واقعہ پر محکمہ پولیس کو سنجیدگی سے ایکشن لینا چاہئے تاکہ آئندہ کوئی دوسرا ذیشان ظہور ان درندہ نما وحشی افراد کی فائرنگ کا نشانہ نہ بنے۔
صحافیوں اور ناشران کا قتل لمحۂ فکریہ
Dec 08, 2021