اسلامیان برصغیر کے وہ عظیم المرتبت افراد جو تمام عمر تحریک پاکستان اور پھراستحکام پاکستان کیلئے وقف رہے ان میں حکیم عنایت اللہ نسیم کا نام نمایاں ہے۔ اسلام پاکستان اور طب مشرق کی ترقی اور فروغ ان کی زندگی کا جلی عنوان ہے۔ وہ کہ ایک ہمہ، جہت،ہمہ صفت،عہد آفرین اور نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ بیک وقت بے مثال خطیب ،بے بدل ادیب ، نڈر صحافی ،بلند پایہ شاعر ،مایہ ناز طبیب ، دانشور ،ممتاز سماجی وسیاسی کارکن ،تحریک پاکستان ،تحریک تحفظ ختم نبوت کے کارکن تھے۔ مگر ان کا سب سے بڑا وصف ان کا سچا وپکا مسلمان ہونا تھا۔ انہوں نے حق پرستوں کی طرح زندگی گزاری اور جس کام میں بھی حصہ لیا اس کا مقصد اسلام کی سربلندی وسرفرازی رہا۔ حالات و واقعات ، مسائل و مشکلات ان کے پایہ استقلال میں لغزش پیدا نہ کر سکے۔ گزشتہ نصف صدی میں علم وادب کا میدان ہویا طب وصحت کا، تحریک پاکستان ہو یا استحکام پاکستان ،ختم نبوت کی تحریک ہو ،یا نظام مصطفی کی ،شعر و شاعری ہو یا سماجی بہبود کی سرگرمیاں ہو ں یا قومی خدمت کا کوئی مسئلہ ہو وہ ہر جگہ سچے جذبوں سے نظر آتے ہیں۔ حکیم عنایت اللہ نسیم کا تعلق ایک دین دار اور ممتاز طبی خانوادہ سے تھا۔ ان کی ولادت مردم خیز سرزمین سوہدرہ میں ہوئی ابتدائی دینی تعلیم مولانا غلام نبی اربانی سے حاصل کی۔ ان کے چچا حکیم عبدالرحمن اپنے عہد کے نامور طبیب تھے۔ دوران تعلیم ہی با با ئے صحافت مولانا ظفر علی خان سے تعلق قائم ہوگیا۔ میٹرک کا امتحان پاس کیا تو مولانا ظفر علی خان کے ایما پر مزید تعلیم کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے۔ جہاں سے طب کا پانچ سالہ ڈگری کورس امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی ان دنوں ملی سرگرمیوں کا مرکز تھی۔ یوں آپ کا دور شباب حریت وآزادی سے عبارت ہے۔ اس یونیورسٹی کے طلبہ نے برصغیر کی تاریخ میں ایک انقلاب برپا کیا اور برطانوی و ہندو سامراج سے آزادی حاصل کرکے پاکستان قائم کیا۔ حکیم عنایت اللہ نسیم ان طلبہ کے سرخیل تھے جو قیام پاکستان کی جنگ لڑ رہے تھے۔ علی گڑھ میں جب آل انڈیا مسلم سٹودنٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا تو حکیم صاحب تا سیسی اجلاس میں شریک تھے۔ قائد اعظم کی علی گڑھ آمد پر جن طلباء نے ان کی بگھی کو کندھوں پر اٹھایا ان میں بھی وہ پیش پیش تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وہ طلبہ جو آل انڈیا مسلم لیگ کے لکھنوَ سیشن 1937ء ، پٹنہ سیشن 1938ء اور لاہور سیشن 1940 ء میں شریک ہوئے ان میں حکیم عنایت اللہ نسیم شامل تھے۔ 1937ء کے بجنور کے ضمنی انتخابات میں مولانا شوکت علی اور مولانا ظفر علی خان کے ہمراہ کام کیا۔ فسادات بہار میں بیگم سلمیٰ تصدق حسین کے ساتھ کام کیا۔ 1946ء کے انتخابات جو قیام پاکستان کے نام پر لڑے گئے میں نواب زادہ لیاقت علی اور کنور اعجاز کے حلقہ مظفر نگر میں مسلم لیگ کی جانب سے ڈیوٹی کی۔ تحریک پاکستان میں مولانا ظفر علی خان اور ابوسعید انور کے ہمراہ کام کیا۔ قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آباد کاری، تحریک جمہوریت ،تحریک ختم نبوت ،تحریک نظام مصطفی میں کا م کیا۔ آپ کو 1987 ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے تحریک پاکستان گولڈ میڈل دیا گیا۔ حکیم عنایت اللہ نسیم نظریہ پاکستان کے سچے سپاہی تھے۔ پاکستان سے محبت ان کے ایمان کا حصہ تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یہ وطن ہم نے بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے۔ اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔ ہم نے آزادی کی نا قدری کی جس کی سزا سقوط مشرقی پاکستان کی صورت میں ملی ہے۔ پاکستان کی بقا و تحفظ نظریہ پاکستان میں ہے۔ ہم نے عطیہ ربانی کی قدرنہ کی اور قائد کی امانت میں خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اسلام پاکستان اور طب کے حوالے سے جب کوئی مسئلہ ہوتا وہ تحریروتقریر دونوں صورتوں میں سامنے آجاتے اور رہنمائی کرتے۔ آپ مولانا ظفر علی خان کے خصوصی مداح تھے،انکے رفیق تھے۔ مولانا ظفر علی خان کے انتقال کے بعد وہ واحد شخصیت تھے جنہوں نے ظفر علی خان کے فکرونظر کے چراغ کو جلائے رکھا۔ مرکزیہ مجلس ظفر علی خان قائم کی۔ان کی شخصیت پر قائداعظم کے سیاسی افکار،علامہ اقبال کے فکر وفلسفہ ،مولانا ظفر علی خان کے جذبوں اور ولولوں کی گہری چھاپ تھی۔ آپ نے ایک رفاہی ادارہ البدر کمپلیکس بھی قائم کیا جس میں دارلمطالعہ، لائبریری ،بچیوں کیلئے دستکاری سکول وقرآن سکول قائم کیے۔ انجمن حمایت اسلام لاہور کی جنرل کونسل ،مجلس کارکنان تحریک پاکستان کی مجلس عاملہ ،مجلس محمد علی جوہرکی مجلس عاملہ کے ممبر ،مرکزی مجلس ظفر علی خان کے بانی و صدر ،طبیہ کالج حمایت اسلام لاہور کی کمیٹی کے ممبر رہے۔ اتنی مصروف زندگی کے باوجودباقاعدہ مطب کرتے۔ آپ نیشنل کونسل فار طب حکومت پاکستان کے گیارہ سال ممبر رہے ،امتحانی کمیٹی کے چیرمین اور حکماء کی تنظیم پاکستان طبی ایسوسی ایشن کے مرکزی جنرل سیکرٹری ،فار ائیر ہیلتھ پلان اور ٹیکسٹ بک کمیٹی کے ممبر رہے۔ ان کی معروف تصانیف میں ظفرعلی خان اور ان کا عہد ،قائد اعظم محمد علی جناح ،علی گڑھ کے تین نامور فرزند،رسول کائنات،طبی فارما کوپیا ،جدید و قدیم طب کا موازنہ ،پھلوں وسبزیوں سے علاج شامل ہیں ۔ آپ9 دسمبر 1994 ء کو چند روزہ علالت کے بعد جمعہ کی شام انتقال کرگئے۔ آپ کی نماز جنازہ حافظ احمد شاکر بن عطا اللہ حنیف نے پڑھائی۔ آپ کو آباء و اجداد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔