نصیراللہ خان بابر

میجر جنرل
نصیراللہ خان بابر: (ستارۂ جرأت اور بی اے آر، ہلالِ جرأت)
تاریخ پیدائش: 1928ء
مقام پیدائش: پیرپیائی ضلع نوشہرہ کے پی کے
یونٹ: آرٹلری کور
تاریخ وفات: 10 جنوری 2011ء

بابر نے ابتدائی تعلیم (1935-1939ئ) پریزنیٹیشن کونونٹ سکول پشاور سے حاصل کی اور پھر (1939-1941ئ) برن ہال سکول میں داخل ہو گئے جو ان دنوں سری نگر میں قائم تھا۔ 1947ء میں تقسیم کے وقت یہ سکول سری نگر سے ایبٹ آباد منتقل کر دیا گیا تھا۔   رائل انڈین ملٹری کالج ڈیرہ دون میںداخلہ لینے  کے بعد 1948ء میں پاک فوج میں شامل ہو گئے۔ وہ 1950ء میں پاس آؤٹ ہونے والے پہلے پی ایم اے لانگ کورس میں شامل تھے۔
میجر جنرل نصیراللہ خان بابر (ستارہ جرأت BAR) کا نام پہلی مرتبہ قومی اُفق پر اس وقت جگمگایا جب 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہوں بطور پائلٹ ایک ہیلی کاپٹر اُڑاتے ہوئے تن تنہا بھارتی فوج کی ایک پوری کمپنی کو جنگی قیدی بنا لیا تھا۔ یہ بطور پائلٹ ان کی مہارت اور حاضر دماغی کا نتیجہ تھا کہ بھارتی فوج کی کمپنی نے ان کے سامنے ہتھیار پھینک دیئے۔
یکم ستمبر 1965ء کو انہیں حکم ملا کہ وہ بریگیڈیئر اسحاق کو مری سے راولا کوٹ لے جائیں۔ مری پہنچنے پر انہیں معلوم ہوا کہ بھارتی فوج نے چھمب پر حملہ کیا ہے اور بھارتی فوجی چھب کے نزدیک پہنچ چکے ہیں اپنا کام مکمل کرنے کے بعد نصیراللہ خان بابر اور بریگیڈئر اسحاق نے فیصلہ کیا کہ انہیں چھمب جا کر صورتحال کا جائزہ لینا چاہئے یوں دونوں افسران بریگیڈ ہیڈ کوارٹر بھمبر کیلئے روانہ ہو گئے۔ ان کے پاس کسی قسم کا اسلحہ یا نقشے وغیرہ موجود نہیں تھے۔ شام کے سائے پھیلنا شروع ہو گئے تو نصیراللہ خان بابرہیلی کاپٹر سے  ایک بھارتی چوکی کے قریب اتر چکے تھے ۔ اس نازک موقع پر کرنل نصیراللہ خان بابر بوکھلانے کی بجائے نہایت اعتماد کے ساتھ بھارتی چوکی کی جانب بڑھے اور تحکمانہ انداز میں اس میں موجود بھارتی فوجیوں کو کھڑے ہونے کا حکم دیا۔کرنل نصیراللہ خان بابر اور ان کے ساتھیوں  نے انتہائی اعتماد کے ساتھ تعداد میں کہیں زیادہ بھارتی فوجیوںکونہایت بارعب انداز میں بتایا کہ ان کو چاروں طرف سے گھیرے میں لیا جا چکا ہے ، لہٰذا وہ ہتھیار پھنک دیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس بھارتی چوکی پر پانچویں سکھ لائٹ انفنٹری کمپنی کے فوجی بڑی تعداد میں بمعہ بھاری اسلحہ جس میں 106RR، ایک مارٹر اور ایک ایم ایم جی موجود تھے۔ بھارتی فوجیوں نے حواس باختہ ہو کر ہتھیار پھینک دیئے اور کرنل نصیراللہ خان بابر انہیں لیفٹ رائٹ کرواتے ہوئے پاکستانی علاقے میں لے آئے۔ اس پر اعتماد فیصلے  اور  جرأت مندانہ اقدام پر جنگ کے اختتام کے بعد انہیں (1972-1974)  میںترقی دے کر انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور تعینات کر دیا گیا۔ قبائلی علاقہ جات میں فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے نصیراللہ خان بابر کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آتی رہیں۔ بطور انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور نصیراللہ خان بابر نے اس وقت صوبہ سرحد (موجودہ کے پی کے) کے چیف سیکرٹری مسٹر نصرمن اللہ کے ساتھ مل کر نیو فارورڈ پالیسی وضع کی جس کے تحت فاٹا میں سڑکیں، سکول، ہسپتال، چھوٹے ڈیم اور صنعتیں لگائی گئیں۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیراعظم تھے۔ فاٹا کی تعمیر و ترقی کے حولے سے انہوں نے نیک نامی حاصل کی  چنانچہ انہوں نے 1974ء میں انفنٹری ڈویژن کو کمانڈ کرتے ہوئے فوج کی ملازمت سے استعفا دیدیا اور گورنر صوبہ کے پی کے مقرر کیے گئے۔ 19 اگست 2008ء کو ان پر فالج کا حملہ ہوا اور انہیں ہسپتال میں داخل کر دیا گیا جہاں سے نومبر 2008ء کو وہ صحتیاب ہو کر  گھر منتقل ہو گئے۔ ان کا انتقال 10 جنوری 2011ء میں ہوا۔
٭٭

ای پیپر دی نیشن