اسلام آباد (نامہ نگار) پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے ہدایت کی ہے کہ قومی احتساب بیورو کی جانب سے غیر مجاز طور پر استعمال کی گئی سپلیمنٹری گرانٹ آنے والے منی بجٹ کے ذریعے پارلیمنٹ سے منظور کرائی جائے۔ جبکہ نیب کی جانب سے کی گئی ریکوریوں کے معاملے پر بریفنگ کے لئے جنوری کے پہلے ہفتے میں (ان کیمرا) میٹنگ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیئرمین کمیٹی رانا تنویر حسین نے ہائوسنگ سوسائٹیوں سے ریکوری پر چیئرمین نیب کی تعریف کی جبکہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کمیٹی کو بتایا کہ کسی کے ذہن میں یہ ابہام نہیں ہونا چاہئے کہ پارلیمنٹ سپریم نہیں ہے ، پارلیمنٹ ملک کا سپریم ترین ادارہ ہے، مجھے احساس ہے کہ ایک دو مرتبہ حاضر نہیں ہو سکا اس کی جائز وجوہات تھیں، میں چیئرمین نیب ہوں کوئی مغلیہ بادشاہ نہیں، نہ میں قانون سے بالاتر ہوں، ادارہ احتساب کے لئے ہر وقت تیار ہے، میں چار سال سے چیئرمین نیب رہا چار سال کا مکمل آڈٹ کرایا گیا، ایک ایک پیسے کا آپ کو حساب دیں گے، جتنی ریکوری ہوئی یہ تمام تفصیل مل جائے گی۔ منگل کو پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی رانا تنویر حسین کی صدارت میں ہوا، اجلاس میں قومی احتساب بیورو کی جانب سے استعمال کی گئی گرانٹ اور نیب کی جانب سے کی گئی ریکوریوں کا معاملہ زیر غور آیا۔ اجلاس میں چیئرمین نیب نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کے آغاز پر چیئرمین کمیٹی رانا تنویر حسین نے چیئرمین نیب سے کہا کہ آپ ہمارے لئے محترم ہیں ، آپ نے اتنا وقت لگا دیا آنے میں، باہر کیا ہو تا ہے کیا نہیں ہوتا وہ علیحدہ ایشو ہے، آپ بھی اپنی کارکردگی اخبار میں بتاتے ہیں، اگر پارلیمنٹ کو بتائی جائے تو زیادہ داد ملے گی۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ ایک مرتبہ آنکھ کے آپریشن کی وجہ سے آنا ممکن نہیں تھا میں گھر میں بیٹھ کر کام کرتا رہا ہوں، میں عزت افزائی کے لئے ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے بلایا، آئندہ آپ جب بلائیں گے چند روز پہلے پتہ چل جائے تو میں ضرور آئوں گا، میں چار سال سے چیئرمین نیب رہا چار سال کا مکمل آڈٹ کرایا گیا چار سال کا آڈٹ ہو چکا ہے، رکن کمیٹی سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ ہم بھی میرٹ پر چلتے ہیں، آپ بے فکر رہئے۔ رکن کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ چیئرمین نیب کو ویلکم کرتا ہوں ان کو بتانا چاہتا ہوں یہاں کوئی بھی پرسنل نہیں ہوتا، ملک کے لئے جیسے آپ کام کرتے ہیں ویسے ہم بھی کرتے ہیں،کرپشن کے خلاف ہم سب لڑتے ہیں، باتوں سے ایسے لگتا ہے ملک میں ایک ہی مجرم ہے اور وہ سیاستدان ہے۔ چیئرمین نیب ایک شریف النفس بندے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی رانا تنویر حسین نے اے جی پی آر حکام سے کہا کہ اگر غیر مجاز خرچہ کیا ہے تو یہ ان سے قابل وصول ہے، آپ نے اسے نمٹانے کا کس طرح کہا، کیا یہ غیر مجاز نہیں ہے؟ رکن کمیٹی شیری رحمان نے کہا کہ ڈی اے سی کی سفارش آپ کے کہے بغیر نہیں آتی، آپ تو فوراً کہہ دیتے ہیں کہ ہم اس سے متفق نہیں ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سپلیمنٹری گرانٹ غیر مجاز ہونا اور زیادہ سنجیدہ مسئلہ ہے، نیب حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ اس سال میں تنخواہوں میں اضافہ ہوا، یہ اضافہ حکومت کی منظوری سے ہوا، اے جی پی آر کے ذریعے ادائیگیاں کی گئیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ منی بجٹ آرہا ہے اس میں سپلیمنٹری گرانٹ لاکر ریگولرائز کر سکتے ہیں تو کرالیں ورنہ یہ قابل وصول ہے۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ ایک ایک پیسے کا آپ کو حساب دیں گے، جتنی ریکوری ہوئی یہ تمام تفصیل مل جائے گی،رانا تنویر حسین نے کہا نے کہا کہ ہم آپ کو ان کیمرا موقع دینے کے لئے تیار ہیں آپ کھل کر بات کرسکتے ہیں،چیئرمین نیب نے کہا کہ پی اے سی کے پیراز پر چار سالوں میں 120ریفرنس فائل کیئے ہیں، کمیٹی نے جنوری کے پہلے ہفتے میں (ان کیمرا) میٹنگ رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ دریں اثناء میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جاوید اقبال نے کہا ہے کہ نیب سے وہ چند لوگ مطمئن نہیں جن کے خلاف مقدمات زیرسماعت ہیں۔ منگل کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کے بعد انہوں نے کہا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور ارکان کا شکرگزار ہوں‘ پی اے سی میں آ کر اچھا لگا ہے۔