قوم کو مبارک ہو اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے کم و بیش چار ماہ تک خاموش رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئے جمہوریت کو مضبوط بنانے میں اپنے حصے کا کام کر دیا ہے۔ 23 مارچ کو احتجاج کا مطلب یہ ہے اگلا بجٹ بھی پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت پیش کرے گی۔ عام آدمی اس وقت تکلیف میں ہے لیکن میاں شہباز شریف مارچ تک کوئی احتجاج نہیں کریں گے۔ مارچ تک وہ ملک و قوم کا ہونے والا نقصان ایک تماشائی کی حیثیت سے دیکھتے رہیں گے۔ مولانا فضل الرحمٰن کی نمائشی پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے 23مارچ تک چھٹی لے لی ہے۔ یہ اتحاد 23مارچ کو اسلام آباد کی طرف مہنگائی مارچ کرے گا۔ اس دوران صوبائی سطح پر تحریک کے اجلاس منعقد کیے جائیں گے۔ میاں شہباز شریف نے جدوجہد کے اس وقت میں خاموشی میں عافیت سمجھی ہے۔ وہ اپنے گھر والوں کی دیکھ بھال کریں گے اور ان کے معاملات کو بھی سدھارنے کی کوشش کریں گے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو تو پہلے ہی پی ڈی ایم میں صرف اعلانات یا ناراض ہونے کے لیے رکھا گیا ہے۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں ان کا اس سے زیادہ کردار معلوم نہیں ہوتا۔ میاں شہباز شریف نے ضرورت کے وقت خاموشی اختیار کر کے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ عوام کو ان سے بہت زیادہ توقعات ہیں کیونکہ میاں نواز شریف کی عدم موجودگی میں نون لیگ کے لیے میاں شہباز شریف ہی سب سے بہتر اور طاقتور سیاست دان سمجھے جاتے ہیں۔ لوگوں کو ان سے بہت توقعات ہیں لیکن ایسے وقت میں جب مہنگائی کا طوفان ہے، روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے ان حالات میں قائد حذب اختلاف کا الگ ہو جانا یا عوامی مسائل سے لاتعلقی کا اظہار کر دینا یقینا یہ بتاتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ وہ عام آدمی کے مسائل پر توجہ دی سکیں۔ 23مارچ تک لوگ بھوک سے مرتے رہیں اور کوئی شور ہو گا نہ قائد حزب اختلاف عوام سے دور رہیں گے۔ تئیس مارچ تک میاں شہباز شریف چھٹیوں پر ہوں گے لیکن اس دوران ایک نمائندہ سیمینار ہو گا جس میں وکلا برادری سے مشاورت ہو گی۔ ہو سکتا ہے اس دوران تاجروں، صنعتکاروں اور جاگیر داروں سے بھی میٹنگز کی جائیں۔ ان سے بھی تعاون طلب کیا جائے۔ کیونکہ لانگ مارچ کے لیے بجٹ کا حساب کتاب بھی تو کرنا ہے۔ ویسے اس سے بے جان اپوزیشن بھی شاید ہی دیکھنے کو ملے۔ نہ اپوزیشن لیڈر عوام کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اپوزیشن نے چار ماہ کا وقت لیا ہے اور حکومت کہتی ہے کہ چند ماہ میں مہنگائی کم ہو جائے گی پھر احتجاج کس کے خلاف کریں گے۔ اپوزیشن کا ہدف تو حکومت ہوتی ہے اور حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔
نریندرا مودی کی تعصب پسندی کی وجہ سے سکھوں کی نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ بھارت میں خالصتان کی تحریک ایک مرتبہ پھر زور پکڑ رہی ہے۔ بھارت میں سکھوں کے علیحدہ وطن کے مطالبے میں شدت آتی جا رہی ہے۔ نریندرا مودی کی حکومت نے اس تحریک اور الگ وطن کے مطالبے کو ھ ہر ممکن کوشش کر لی ہے۔ بھارتی حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود سکھ الگ وطن کے مطالبے پر قائم ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے لیے زندگی کو مشکل بنا دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے گھروں پر حملے ہو رہے ہیں، مساجد کو نذر آتش کیا جا رہا ہے جبکہ عیسائیوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سکھ اس حوالے سے سب سے متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ بھارت میں سکھوں کے علیحدہ وطن کے لیے برطانیہ میں ریفرنڈم پانچویں مرحلے میں داخل ہو گیا ہے برطانیہ کے مختلف شہروں میں ہونے والے اس ریفرنڈم میں لگ بھگ پچاس ہزار سکھوں نے حصہ لیا تھا اس ریفرنڈم کے نتائج عالمی اداروں کو بھجوائے جائیں گے جبکہ تحریک خالصتان کے منتظمین کے مطابق بھارتی پنجاب کے علاقوں کے ساتھ ساتھ یہ ریفرنڈم امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں بھی کروایا جائے گا۔ بھارت ہمسایہ ممالک میں عدم استحکام اور بدامنی کے لیے سازشیں کرتا رہتا ہے جب کہ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ نریندرا مودی کی حکومت میں وہاں ہندوؤں کے علاوہ سب کا جینا مشکل ہو چکا ہے۔ خالصتان تحریک میں شدت بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کی بڑی مثال ہے۔ بھارت میں ریاستی سطح پر انتہا پسندی کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ ایک طرف تحریک خالصتان زور پکڑ رہی ہے تو دوسری طرف کشمیر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی بھی دنیا کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بھارتی حکومت اس ریفرنڈم سے ناخوش ہے اور وہ سکھوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ سکھوں کی طرف سے علیحدہ وطن کے مطالبے کے لیے ریفرنڈم کا حصہ بننے والے سکھوں کو بھی دھمکایا جا رہا ہے۔ بھارتی حکومت سکھوں کو ریفرنڈم کو ناکام بنانے اور خالصتان کے مطالبے کو دبانے کے لیے این آر آئی کارڈ اور ویزے منسوخ کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔