اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل ڈویژن بنچ میں زیر سماعت نور مقدم قتل کیس میں اپیلوں پر مجرم ظاہر جعفرکے وکیل عثمان کھوسہ کے دلائل مکمل ہونے پر دیگر ملزمان کے وکلا کے دلائل طلب کرلیے گئے۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران ظاہر جعفر کے وکیل عثمان کھوسہ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ پولیس حکام نو بجے موقع پر پہنچ گئے تھے، شوکت مقدم کو مدعی بننے کی بھی ضرورت نہیں تھی، پولیس فوری مقدمہ درج کر سکتی تھی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہماری پولیس ایف آئی آر درج کرنے میں کیوں تاخیر کرتی ہے؟۔ جس پر وکیل نے کہاکہ مدعی شوکت مقدم نے سی سی ٹی وی ویڈیو دیکھ کر مرکزی ملزم کے والدین کو چار دن بعد نامزد کیا جو کراچی میں تھے، چیف جسٹس نے کہا کہ عام شہری پولیس والوں کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے، وہ جس طرف موڑ دیتے ہیں وہ مجبور ہوتا ہے۔ پراسیکیوشن کو تمام شواہد کی وضاحت کی ضرورت پیش آ رہی ہے، اس کیس میں شواہد کی کڑیاں ایک دوسرے سے ملتی نظر نہیں آ رہیں، کیس سے متعلق تمام حقائق سامنے رکھ چکا ہوں، ظاہر جعفر کا قتل کا کوئی محرک یا ارادہ نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عمر قید بھی دراصل عمر قید نہیں رہتی، بہت ساری رعایتوں کے بعد سزا کی مدت کم رہ جاتی ہے۔ مجرم ظاہر جعفر کے وکیل عثمان کھوسہ کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے آئندہ سماعت پر دیگر مجرمان کے وکلا کو دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت آج تک کے لئے ملتوی کردی۔