اسلام آباد (وقائع نگار+ این این آئی) اسلام آباد ہائیکورٹ نے امریکی جیل میں قید پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ پاکستان میں امریکی سفیر کے سامنے رکھنے کا حکم دےدیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اپنے وکیل حافظ یاسر عرفات کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئیں۔ جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے کہا کہ ڈیڑھ ماہ میں کچھ نہیں کیا گیا، گزشتہ سماعت پر بھی کہا تھا کہ وزارت خارجہ کے سیکرٹری کو عدالت میں بلا لیتے ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ عافیہ صدیقی کی صحت کے بارے میں کیا اطلاعات ہیں؟۔ جس پر وزارت خارجہ کے وکیل نے بتایا کہ اس سلسلے میں کوششیں جاری ہیں۔ وکیل نے کہا کہ ڈاکٹر فوزیہ نے امریکا کے ویزے کے لیے اپلائی کیا تھا جسے مسترد کر دیا گیا۔ ویب سائٹ سے چیک کیا امریکا میں عافیہ صدیقی کا کیس زیرِ التوا ہے اور یہی وزارت خارجہ کا جواب ہے، شاید ان کا سورس بھی ویب سائٹ ہے، اگر ہمیں ویزا مل جائے تو اپنے طور پر کچھ کوشش کی جا سکتی ہے۔ جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ ابھی تک کوئی پلان نہیں ہے۔ دفتر خارجہ کے مطابق امریکا کے محکمہ انصاف کو لیٹر لکھا کہ عافیہ صدیقی کی صحت کے بارے میں بتایا جائے، اس خط کا کوئی جواب نہیں آیا۔ امریکا کے محکمہ انصاف کی ویب سائٹ پر سٹیٹس پینڈنگ آرہا ہے۔ اس موقع پر جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے استفسار کیا کہ فارن آفس امریکی سفیر سے کیوں نہیں پوچھتا؟۔ عدالت نے حکم دیا کہ وزارت خارجہ آئندہ رپورٹ وزیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ کے دستخط سے جمع کرائے۔ کیس کی سماعت 20 جنوری تک ملتوی کردی گئی ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ کیا ہم واقعی اتنے گر گئے ہیں کہ اتنے سالوں میں دو خط پیش کر سکے ہیں جن کا کوئی جواز نہیں، پاکستانی شہری کی کیا اہمیت ہے، شاید اسی لئے گرین پاسپورٹ کی بھی کوئی قدر نہیں، ہم بیچنے کےلئے تو سب کو تیار ہیں، عافیہ وہ کسوٹی بن گئی ہے جو یا تو سب کو جگا دے گی یا ہم اللہ کے قہر کا انتظار کر رہے ہیں۔
فوزیہ صدیقی