اقتصادی حوالے سے پاکستان میں سنگین ترین بحران 1998ءمیں نمودار ہوا تھا۔ بنیادی وجہ اس کی یہ تھی کہ ہم نے تمام تر عالمی دباﺅ کے باوجود اس برس مئی میں بھارت کے ایٹمی پروگرام کے جواب میں اپنی صلاحیت ثابت کرنے پر اصرار کیا۔ بھارت سے حساب برابر کرنے کی پاداش میں امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک نے ہم پر مختلف النوع اقتصادی پابندیاں عائد کردیں۔ بحران سے نبردآزما ہونے کے لئے ہم مجبور ہوئے کہ پاکستان کے بینکوں میں فارن اکاﺅنٹ میں رکھے ڈالروں کو سادہ الفاظ میں ”قومیا“ لیں۔
ان دنوں نواز شریف کی دوسری حکومت تھی۔اس پر اس فیصلے کی وجہ سے شدید تنقید ہوئی۔سرتاج عزیز صاحب کو مذکورہ فیصلے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے وزارت خزانہ سے فارغ کردیا گیا۔ان کی جگہ چند دنوں کے لئے حفیظ پاشا تعینات ہوئے۔ وہ ٹیکنوکریٹ ہوتے ہوئے مگر سینٹ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن ہی نہیں حکومتی اراکین کی جانب سے اٹھائے سوالات کا سامنا کرتے ہوئے پریشان ہوجاتے تھے۔ مشکل کی اس گھڑی میں اسحاق ڈار صاحب کو وزارت خزانہ کا منصب سونپنا پڑا۔ آئی ایم ایف سے رجوع کرنا ان کی جائز بنیادوں پر اولین ترجیح تھی۔
عالمی معیشت کے نگہبان ادارے ان کی بابت سننے کو ہرگز تیار نہ ہوتے اگر نواز شریف بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورئہ پاکستان پر آمادہ نہ ہوتے۔واجپائی بذریعہ بس لاہور آیا تو مینار پاکستان بھی گیا۔وہاں کے پارک میں مارچ 1940ءکے دوران قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی۔ اس نے ”بھارت ماتا“ کی تقسیم کی راہ ہموار کی۔ہندو انتہا پسندی کا نمائندہ ہوتے ہوئے واجپائی کا وہاں جانا یقینا ایک تاریخی فیصلہ تھا۔اس کی بدولت پاکستان اور بھارت باہم مل کر دنیا کو یہ پیغام دینے کے قابل ہوئے کہ خود کو ایٹمی قوت ڈیکلیئر کرلینے کے بعد بھی جنوبی ایشیاءکے دو ”ازلی دشمن“ باہمی امن کو یقینی بنانے کی راہ ڈھونڈرہے ہیں۔اس پیغام کا ڈار صاحب نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کرتے ہوئے کماحقہ فائدہ اٹھایا۔ بالآخر آئی ایم ایف سے ایسا پروگرام لینے میں کامیاب ہوگئے جو پاکستان کے اقتصادی بحران پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوا۔
مذکورہ بالاتاریخی پس منظر بیان کرنے کا حقیقی مقصد اس امر پر اصرار کرنا ہے کہ آئی ایم ایف جیسے عالمی ادارے محض ”اقتصادی“ وجوہات کی بنا پر آپ سے روابط استوار نہیں کرتے۔ان اداروں میں حتمی فیصلہ سازی امریکہ کے اختیار میں ہے۔ خارجہ امور کی بابت اس کی ترجیحات آئی ایم ایف کے رویے میں نرمی یا سختی کا حقیقی سبب ہوتی ہےں۔آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کی فیصلہ سازی میںامریکی ترجیحات کے کلیدی کردار کو مزید سمجھنا ہو تو یہ بھی یاد کرلیں کہ جنرل مشرف نے ایک منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر اکتوبر 1999ءمیں اقتدار سنبھالا تھا۔ امریکی صدر کلنٹن اس کے بعد بھارت جاتے ہوئے محض پانچ گھنٹوں کے لئے پاکستان رکا۔ اس نے ”فوجی آمر“ کے ساتھ ملاقات کی تصویر بھی جاری نہ ہونے دی۔
ہمارے سرکاری ٹیلی وژن پر ہمیں ”بندے کا پتر “بن جانے کی ترغیب بھی دی۔وائٹ ہاﺅس چھوڑنے سے قبل اس نے نواز شریف کی مشرف کی جیل سے سعودی عرب روانگی بھی یقینی بنائی۔ اس کی رخصت کے فوری بعد مگر نائن الیون ہوگیا۔پاکستان ”دہشت گردی کے خلاف“ جنگ کے نام پر ایک بار پھر امریکہ کے لئے اہم ترین ہوگیا۔کلنٹن کا جاں نشین صدر بش ہمارے ”فوجی آمر“ کو اپنا ”جگری یار (Tight Buddy)“پکارنا شروع ہوگیا۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے ہماری معیشت کو رونق بھی فراہم کردی۔ اس ”رونق“ کی پاکستان کے عام شہر یوں نے دہشت گردی کی لہر کے ہاتھوں جو قیمت ادا کی اسے مگر ہم یاد نہیں رکھتے۔
ستمبر2006ءسے مگر امریکہ ہمیں ”ڈبل گیم“ کھیلنے کا مرتکب ٹھہرانا شروع ہوگیا۔ جنرل مشرف پر دباﺅ بڑھایا گیا کہ وہ ”دہشت گردی کے خلاف“ جنگ کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی ”لبرل“ اور قدآور سیاست دان سے مخاصمت کا رویہ ترک کردے۔ جنرل مشر ف اس کے لئے آمادہ ہوگئے تو محترمہ مشتعل ہوئے انتہا پسندوں کا ہدف بن گئیں۔
2008ءکے انتخابات کے بعد جو حکومت قائم ہوئی وہ اپنے تئیں ٹھوس اکثریت کی حامل نہیں تھی۔ اسے ”اتحادیوں“ سے رجوع کرنا پڑا۔ اپنا وجود برقرار رکھنے کی تگ ودو میں مبتلا حکومت کے پاس ”دہشت گردی“ پر کامل توجہ دینے کا وقت ہی میسر نہیں تھا۔ امریکہ ہی نہیں بلکہ یورپ کے کئی ممالک بھی 2008ءمیں اپنے بینکوں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے میں مصروف رہے۔ پاکستان سے افغانستان کے حوالے سے ”ڈومور“ کے تقاضے بھی شروع ہوگئے۔ہماری اقتصادی مشکلات میںاضافہ شروع ہوگیا۔اپنے بحرانوں کے حقیقی اسباب جاننے کے بجائے مگر ہم محض ”کرپشن“ کو اپنی تمام مشکلات کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع ہوگئے۔2011ءسے عمران خان صاحب نے ”موروثی سیاست“اور ”حکومت میں باریاں“لینے والوں کو ”کرپشن“ کی حتمی علامتیں بناکر لوگوں کے دل جیتنا شروع کردئیے۔
پاکستان کی اقتصادی مشکلات کے حقیقی اسباب مگر اپنی جگہ قائم رہے۔عمران خان صاحب اگست 2018ءمیں اقتدار سنبھالنے سے قبل سینہ پھلاکر دعویٰ کیا کرتے تھے کہ وہ پاکستان کی اقتصادی مشکلات پر قابو پانے کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے بجائے ”خودکشی“ کو ترجیح دیں گے۔انہیں بھی تاہم اپنے وفادار ساتھی اسد عمر کووزارت خزانہ کے منصب سے ہٹاکر آئی ایم ایف کے لاڈلے ٹیکنوکریٹ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو تعینات کرنا پڑا۔ڈاکٹر حفیظ شیخ نے منصب سنبھالتے ہی آئی ایم ایف سے معاہدہ پر دستخط کردئے۔اس معاہدے کی بدولت جو رقوم ہمیں ”سہارا“ دینے کے نام پر ملنا تھیں ان کے عوض چند شرائط پر عملدرآمد بھی ضروری تھا۔ ان شرائط کی ووٹ کی محتاج حکومت کو ”سیاسی قیمت ’“ اد ا کرنا ہوتی ہے۔اسی باعث عمران خان صاحب مارچ 2021ءمیں یوسف رضا گیلانی کو سینٹ میں آنے سے روکنے میں ناکام رہے تھے۔حفیظ شیخ کو بھی فارغ کرنا پڑا۔ان کی جگہ شوکت ترین آئے تو آئی ایم ایف کو رعونت سے نظرانداز کرنا شروع ہوگئے۔ میری ناقص رائے میں اسحاق ڈار صاحب بھی ان دنو ں ویساہی رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی اقتصادی مشکلات کے حقیقی اسباب
Dec 08, 2022