دھوکے باز فریبی 

Dec 08, 2022

طیبہ ضیاء … مکتوب امریکہ


 جو شخص یہ کہے اسے جھوٹ اور بے ایمانی سے سخت نفرت ہے ذرا اس سے مالی لین دین توکریں منافقت کھل کر سامنے آجائے گی ،کمال کے سکرپٹ رائٹر اور منجھے ہوئے فنکار ہوتے ہیں،دغا باز فریبی لچھے دار گفتگو سے ڈنگ مارتا ہے۔دور سے بڑے دانشور ایماندار پارسا دکھائی دینے والوں سے کبھی ڈیل کرنا پڑے تو بندے کی اصل اوقات دکھائی دیتی ہے۔سیاستدانوں کے لئے مشہور ہے کہ تو وہ پیشہ ور بزنس مین ہوتا ہے جو لفظوں سے جذبات خریدنا جانتا ہے۔ لیکن پاکستان میں اب ماشا اللہ ہر بندہ سیاستدان بن چکا ہے۔چار پیسوں کے لئے اک دوجے کو خرید بیچ رہے ہیں۔ بے دریغ جھوٹ بولا جاتا ہے اور ایک جملہ “لوگوں سے بنا کر رکھو، کام پڑ سکتا ہے،بھی زبان زد عام ہے یہ وہ جملہ یا نصیحت ہے جس کا پاکستان میں عام استعمال ہوتا ہے۔یہ سراسر منافقت ہے۔ لوگوں سے تعلق بے لوث رکھو، خدا کام بھی کر دے گا اور بھرم بھی رکھ لے گا۔ کام یا مفاد کی غرض سے بنا کر رکھنا بدنیتی اور منافقت ہے۔ پاکستانیوں میں کام کی غرض سے بنا کر رکھنے کا کلچرعام ہے۔مفادات کے تعلقات جعلی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کالائف سٹائل انتہائی کھوکھلا ہوتا ہے۔ توکل کا فقدان اس قدر کہ بندہ بندے سے صرف اس لئے میل ملاپ رکھے کہ کام پڑ سکتا ہے ؟ بیرون ملک لوگ آتے ہیں اور یہاں بھی وہ طبقہ آباد ہے جو بنا کر رکھنے کا قائل ہے۔وطن سے آئے صاحب حیثیت افراد کی آمد پر آﺅ بھگت کی جاتی ہے۔ لیکن جب یہ لوگ پاکستان جاتے ہیں تو جن سے بنا کر رکھی تھی وہ فون پر ٹرخا دیتے ہیں۔ کام پڑ جائے تو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں۔ ٹرک کی بتی ایجاد نہ ہوتی تو پاکستانیوں کا اخلاق بے نقاب ہوجاتا۔ٹرک کی بتی کے پیچھے بھی وہی لگاتے ہیں جن سے بنا کر رکھی ہوتی ہے۔پاکستان میں ٹرک کی بتی کا مفہوم ہے ”بد نیتی“ اور بدنیتی کا دوسرا نام بے غیر تی منافقت ہے۔ ”ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا“ کا پس منظر کچھ یوں ہے ایک دوڑ کے مقابلے میں حصہ لینے والوں کو ایک سرخ نشان دِکھا کرکہا گیا کہ اس نشان کو ہاتھ لگاکر واپس آنا ہے۔دوڑ میں حصہ لینے والوں میں سے ایک بندہ دودن بعدواپس آیا جب وجہ پوچھی گئی تو اس کا جواب تھاکہ ٹرک رکتا تو مَیں ہاتھ لگاتا۔ٹرک کی بتی سے مراد کام پڑ جائے تو صاف جواب بھی نہیں دیتے کہ تعلق خراب ہوگا اور کام کرنا بھی نہیں چاہتے۔تعلق خراب ہو گیا تو اپناکام پڑنے پر پھرکس منہ سے کہہ سکیں گے۔نجی الیکٹرانک میڈیا اور ڈھیروں پرنٹ میڈیا آنے سے پہلے صحافیوں کو کوئی مفت کی چائے بھی نہیں پوچھتا تھا۔ آج وہی صحافی سیاستدانوں کو بیچ کر کھا رہے ہےں۔ ان صحافیوں کا آج اور کل حیران کن ہے۔ نو دولتیے اسی طرح پہچانے جاتے ہےں۔ آج اور کل پروگراموں کے نام ہی نہیں بدلتے چہرے اور کرداروں کے نام بھی بدل جاتے ہیں۔ جگت بازی سے بڑا کمایا ہے اس گروپ نے۔لطیفے سناتے سناتے کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور اب ان تمام سنجیدہ اور شگفتہ جگت بازوں کی نسلیں چاپلوسی کا کھا رہی ہےں۔سب سے بنا کر رکھتے ہےں در حقیقت کسی سے نہیں بنائی بلکہ ایک دوسرے کو بنا رہے ہیں۔ پیسے سے شہرت مل سکتی ہے لیکن عزت نہیں خریدی جا سکتی۔ عزت کا تعلق دل سے ہے اور عوام سے عزت لینے کے لئے ان کے دل میں گھر کرنا پڑتا ہے اور یہ کام مرثیہ گوئی سے نہےں بلکہ اخلاص سے ہوتاہے۔مفاد کی دنیا کا باسی عزت و تکریم کا قائل نہےں ہوتا اسے فقط شہرت اور پیسے سے غرض ہوتی ہے اس کے لئے اسے خبیث سے بھی بنانا پڑے تو بناتا ہے۔اللہ کا وعدہ ہے خبیثوں کے لیے خبیث اورمومن کے لئے مومن کام کی غرض سے تعلق بنانے والے چھوٹے لوگ ہوتے ہیں۔مال کی خاطر ایک دوسرے کو بے وقوف بنانے کی چکر میں رہتے ہیں۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ناحق کسی کا مال کھانے والے اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں،مقروض کی میت اذیت میں رہتی ہے نماز جنازہ بھی ادا نہ کیا جائے جب تک میت کاقرض ادا نہ کر دیا جائے۔

مزیدخبریں