اسلام آباد (خصوصی رپورٹر)وفاقی شرعی عدالت میں خواجہ سرائوں کے حقوق سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سید محمد انور نے نادرا میں خواجہ سرائوں کی رجسٹریشن کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہو ئے کہا ہے کہ نادرا کی بڑی کمزوری ہے کہ نام تبدیلی اور جینڈر تبدیلی کا کوئی سپیشل اور بہتر میکنزم موجود نہیں ہے اس سے تو کوئی دہشت گرد بھی دہشت گردی کی کارروائی کے لیے آسانی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔قائمقا م چیف جسٹس وفاقی شریعت کورٹ جسٹس سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین ایم شیخ پر مشتمل دو رکنی بیچ نے خواجہ سراں سے متعلق ایکٹ 2018کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کی تو وزارت انسانی حقوق نے اپنی رپورٹ کورٹ میں پیش کی جس کے مطابق چار ٹرانسجینیڈر نادرا میں ملازمت کر رہے ہیں اور یہ 2011 سے نادرا میں ملازم ہیں۔ ابتدا میں ایک بار پھر چیف جسٹس نے نادرا کے نمائندوں سے استفسار کیا کہ ان کے پاس ایکس جینڈر کی رجسٹریشن کا کوئی اسپیشل طریقہ کار موجود ہے یا نہیں اور اگر نہیں ہے تو آپ لکھ کر دیں کہ نادرا کے پاس ایکس جینڈر کی رجسٹریشن کا کوئی خاص طریقہ کار موجود نہیں ۔اس پر نادرا کے نمائندوں نے کہا کہ نادرا کے پاس ایکس جینڈر کی رجسٹریشن کا کوئی خاص طریقہ کار موجود نہیں بلکہ ان کو نادرا رول 3 کے مطابق باقی جینڈرزرز کی طرح ڈیل کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے نادرا نمائندوں سے استفسار کیا کہ کوئی بھی عام شہری اگر نام تبدیل کرنا چاہے تو اس کے لئے کیا طریقہ کار ہے ؟جس پر نادرا کے نمائندے نے کہا کہ اس کے لئے ہم شہری سے ایک اخبار کے اندر نام تبدیلی کا اشتہار لگواتے ہیں اور اس سے بیان حلفی پر دستخط کرواتے ہیں ۔جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ تو نادرہ کی بڑی کمزوری ہے کہ نام تبدیلی اور جینڈر تبدیلی کا کوئی سپیشل اور بہتر میکنزم موجود نہیں ہے اس سے تو کوئی دہشت گرد بھی دہشت گردی کی کاروائی کہلیے آسانی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ سماعت میں ٹرانس جینڈر ریسرچ این جی او کے نمائندہ شیر خان نے بل کے حق میں دلائل پیش کیے۔شیر خان نے امریکن سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جسمانی طور پر کسی مرد کا خود کو عورت محسوس کرنا اور کسی عورت کو خود کو مردمحسوس کرنا کوئی ذہنی بیماری نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے اور اسی حقیقت کی بنیاد پر جنس کا تعین ہونا چاہیے ۔ان کے مطابق جنس کا تعین صرف بائیولوجیکل بنیادوں پر نہیں کیا جاسکتا بلکہ انسانی محسوسات بھی جنس کے تعین کے لیے ضروری ہے۔انہوں نے امریکن سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا اگر اس طرح کے لوگوں کو انکے محسوسات کے مطابق ان کی جنسی شناخت نہ دی جائے تو اس طرح کے لوگ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں جس پر خودکشی کا بھی سوچنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سماعت کے دوران جب چیف جسٹس نے ا ن سے استفسار کیا کہ اگر کوئی مرد خواجہ سرا لڑکیوں کے ہاسٹل کے اندر چلا جائے تو وہاں لڑکیاں ڈسٹرب نہیں ہونگی ؟جس پر شیر خان نے کہا کہ ایسا نہیں ہے اس قانون میں واضح ہے کہ اس طرح کی تمام سہولیات ایکس جنڈر کے لیے علیحدہ رکھی جائیں گیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کہا یہ جا رہا ہے کہ اس قانون کے تحت ہم جنس پرستی بڑھے گی تو کیا کوئی ایسی رپورٹ موجود ہے جس سے اس قانون سے ہم جنس پرست بڑھی ہوئی یا ہومو سیکشول میرجز ہورہی ہوں؟دوران سماعت این جی او کے نمائندہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ہر خواجہ سرا کے لیے 7000روپے وظیفہ بھی مختص کر دیا گیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کو ہدایت کی کہ وہ متعلقہ منسٹری سے معلوم کریں کہ اس رقم کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہوگا اور آنے والی سماعت پر عدالت کو آگاہ کریں۔ سماعت کے دوران جب چیف جسٹس نے ا ین جی او کے نمائندہ سے استفسار کیا کہ اگر جب کوئی عورت وراثت میں زیادہ حصہ لینے کے لیے اپنا جینڈر تبدیل کروائے تو اس قانون کا غلط استعمال نہیں ہوگا ؟اس پر شیر خان نے کہا کہ کوئی بھی اس طرح نہیں کرے گا کیونکہ اس فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا کیونکہ اگر کوئی عورت اس طرح کرے گی تو وہ اپنے شوہر کی میراث سے حصہ نہیں لے سکے گی اور اس کے علاوہ بھی بہت سی لیگل مسائل اس کے لیے بڑھ جائیں گے ۔اس وجہ سے ایسا وہ کبھی بھی نہیں کرے گی۔ ٹرانس جینڈر ریسرچ این جی او کے نمائندہ شیر خان نے بل کے حق میں اپنے دلائل پیش مکمل کر لیے ۔ نیاب علی اور ببلی ملک کے وکلا نے دلائل کے لئے عدالت سے مزید وقت مانگ لیا ۔کیس کی سماعت تیرا دسمبر تک ملتوی کردی گئی ۔