اقوال و افعال کا فقدان

عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور کا قول ہے‘ مردانگی یہ نہیں کہ مشکلات پیدا ہوں‘ اور ان کا سامنا کیا جائے۔ مردانگی یہ ہے کہ مشکلات پیدا نہ ہونے دی جائیں۔ ہم اگر اپنی داستان تحریک قیام پاکستان کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو ایسے لگتا ہے کہ ہمارے قائداعظم پر یہ قول صادق آتا ہے۔ انہوں نے بلاشبہ ہر قسم کی پیدا شدہ مشکلات کا سامنا کیا اور جہد مسلسل سے ان پیدا شدہ مشکلات کا نہ صرف ازالہ کیا بلکہ اپنی زندگی میں عوام کی زندگی سے مشکلات کے خاتمہ کا اہتمام بھی کیا۔ وطن پاک کے حصول میں ان کی اور ان کے رفقاء کی محنت و جانفشانی منزل مراد کا موجب بنی‘ لیکن قیام پاکستان سے لیکر آج تک اس منزل کے حصول کے باوجود عوام کو حقیقی معنوں میں وہ ثمرات میسر نہیں آسکے اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ ہم لمحہ بہ لمحہ بکھر رہے ہیں۔ مختلف ادوار حکومت میں کم و بیش سبھی حکمرانوں نے وطن عزیز کے عوام کیلئے مسائل پیدا کئے اور اپنے وسائل میں اضافہ کیا۔ سابق حکمرانوں کی بعض کوتاہیوں کو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے سابق وزیراعظم عمران خان نے  2014ء سے لیکر 2018ء تک اس انداز سے نشانہ تنقید بنایا کہ عوام کے اندر ایک ہیجان برپا کیا گیا۔ ملک میں مہنگائی‘ قرضوں کے بے جا حصول‘ سابق حکمرانوں کی طرف سے مبینہ کرپشن کی داستانیں اس حد تک بڑھا چڑھا کر عوامی جلسوں میں پیش کی گئی کہ وہ حقیقت کم اور افسانوی درجہ حاصل کی گئیں۔ پٹرول‘ بجلی‘ گیس اور دوشری اشیائے ضرورت کی کمیابی کی ذمہ دار حکمرانوں کو گردانا گیا۔ بغیر سوچھے سمجھے بات کرنا اور فتویٰ کے انداز میں لوگوں کے اذہان خاص طورپر نوجوانوں کو باور کرایا گیا کہ تمہارے حقوق پر ڈاکہ ان کرپٹ حکمرانوں نے ڈالا ہے۔ بعض حکمرانوں اور سیاستدانوں کی کردارکشی اس طرح کی گئی کہ ایک ہیجانی کیفیت روزبروز بڑھتی گئی۔ عمران خان کا یہ پرانا وطیرہ ہے کہ کوئی بھی بات کرنا ہو تو اس میں یاوہ گوئی اور منہ پھٹ انداز اپنانا ہو‘ وہ چوکتے نہیں اور بے ربط گفتگو ان کا شیوہ تھا اور آج بھی ہے۔ اس سلسلے میں ایک  واقعہ قارئین کے گوش گزار کرتا ہوں۔ 1985-86ء میں پنجاب کے زیرتعلیم چودھری ممتاز حسین مرحوم نے پہلی مرتبہ کالجز میں میرٹ کی پالیسی کو نہ صرف متعارف کروایا بلکہ اس پر سختی سے عملدرآمد بھی کروایا۔ جنوری 1986ء میں منٹگمری بسکٹ فیکٹری کے مالک شیخ بشارت نے اپنی فیکٹری کی نسبت سے کرکٹ گرائونڈ میں منعقدہ بین الاضلاعی کرکٹ میچز کا اہتمام کروا کے انہوں نے عمران خان کو ٹورنامنٹس کے انعقاد کے دوران مہمان خصوصی کے طورپر مدعو کیا۔ اور ایک دن صبح پرتکلف ناشتے کا اہتمام کیا۔ چودھری ممتاز حسین کو بھی مہمانوں کے ساتھ شمولیت کی دعوت دی۔ شیخ بشارت نے عمران خان سے چودھری ممتاز حسین کا تعارف کروایا کہ یہ ہمارے شہر کے سینئر وکیل اور پنجاب کے وزیرتعلیم ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ صوبے میں تعلیمی میرٹ کی پالیسی کا نفاذ کروا کر اس پر عمل بھی کروایا ہے۔ عمران خان نے بلا جھجھک کہا کیا خاک میرٹ بنایا ہے۔ بدلحاظی کا مظاہرہ اور کیا ہو سکتا تھا۔ یہ مزاج  آج بھی عمران خان کا شیوہ ہے۔
چند موجودہ واقعات قابل غور ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا کا فرمان‘ کہ جس پر احسان کرو‘ اس کے شر سے بچو۔ کرکٹر کے طورپر بھی عمران خان اپنے علاوہ ہمارے دیگر عظیم کھلاڑیوں کی بدولت شہرت کی بلندیوں پر پہنچے‘ لیکن ملک کے ادارے جو اس کی اقتدار تک پہنچنے میں معین و مدگار تھے‘ انہی کے خلاف عوامی اجتماعات میں ہرزہ سرائی کی۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وطن عزیز کی سرحدوں کا تحفظ‘ قومی سلامتی‘ ازلی دشمن بھارت کے جارحانہ عزائم کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے‘ تو وہ افواج پاکستان ہیں‘ لیکن بدقسمتی سے خان نے انہی کے خلاف وہ منفی اور جارحانہ رویہ اختیار کیا کہ دشمن بھی اس کا ہمنوا ہوا۔ عوام سے کئے گئے بے شمار ایسے وعدے جو پورا ہونے کا تصور بھی نہیںکیا جا سکتا‘ ان سے یوٹرن لینا ایسے ہی ہوگا جیسے بار گیند پھینکنے سے پہلے یو ٹرن لیتا ہے۔ یہ ہماری ملی بدقسمتی ہے کہ عمران خان نے کم و بیش پونے چار سالہ اقتدار میں نہ صرف ملکی معیشت جبکہ معاشرت کا بھی بیڑا غرق ہو گیا جبکہ کہتے تھے آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑا تو خودکشی کر لوں گا۔ خان نے سارے دور میں موج مستی کی‘ لیکن فاقہ کشی کے علاوہ خودکشیاں مفلس و نادار عوام نے کیں۔ میں  حضرت پیر وارث شاہ کے چند اشعار نذر قارئین کر رہا ہوں۔
جاہل فاسق جگ نوں مت دیندے
دانشمند دی مت خوار ہوئی
حق سچ دی گل نہ کرے کوئی
جھوٹ بولنا رسم سنسار ہوئی
مجلس لائیکے کرم حرام پکا
ہتھ ظالماں تیز کٹار ہوئی
صوبے دار حکام نہ شاہ کوئی
رعیت خلقت تہ پئی اجاڑ ہوئی

ای پیپر دی نیشن