بلاول کے پہنے مہنگے ترین جوتوں کی تصویر وائرل
اب کیا کیا جائے۔ اس ملک میں سب سے زیادہ غریبوں کا دکھ اسی کو ہوتا ہے جس نے غربت صرف عوام کے چہروں پر دیکھی ہوتی ہے۔ انہیں کیا معلوم ننگے پیر، پھٹے کپڑے اور بھوکے پیٹ والے کو سب سے زیادہ ضرورت کس چیز کی ہوتی ہے جو لوگ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں انہیں کم از کم غریبوں کے غم میں جھوٹے آنسو بہانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ بے سرو سامانی کا درد وہ کیا جانیں جو کنالوں نہیں ایکڑوں میں بنے گھروں نہیں محلات میں رہتے ہیں۔ مرحوم بھٹو نے کسی نہ کسی طرح ایک نواب ہوتے ہوئے بھی غریبوں کی اسی کمزوری اور دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا جس کے نتیجے میں ملک کے درو دیوار
مانگ رہا ہے ہر انسان
روٹی کپڑا اور مکان
کے نعروں سے گونجنے لگا مگر آج انہی کے نام پر حکومت کے مزے لوٹنے والے آصف علی زرداری کے فرزند بلاول کی اس تصویر نے سوشل میڈیا پر اس طرح ہلچل مچائی ہے جس طرح نواز شریف کی قیمتی گھڑی، مریم نواز کے قیمتی پرس نے مچائی تھی۔ اب خیر سے بلاول نے جو جوتے پہنے ان مہنگے برانڈ والے جوتوں کی قیمت صرف مبلغ آٹھ لاکھ پاکستانی روپے بنتے ہیں جن کا نصف سکہ رائج الوقت صرف چار لاکھ روپے ہوتے ہیں۔ انہیں کون کچھ کہہ سکتا ہے۔ وہ تو اگر حکم کریں شاید ان کے ورکر یا پارٹی عہدیدار اپنی کھالوں سے جوتے بنوا کر انہیں پیش کر سکتے ہیں۔ اب اگر کسی جلسے میں وہ جالب کی ’’پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے‘‘ والا شعر لہک لہک کر سنانے کی کوشش کریں تو کوئی انہیں ذرا ان کے قیمتی جوتوں کی تصویر دکھا ئے تو مزہ آ جائے۔ مگر ایسے کرے گا کون۔
٭٭٭٭٭
شہباز گل کو سانس لینے میں دشواری۔ طبیعت خراب ہونے پر ہسپتال داخل
اب کیا کیا جائے موسم ہی ایسا ہے کہ دھوپ میں جائیں تو گرمی لگتی ہے، سائے میں آئیں تو سردی کا احساس ہوتا ہے۔ اسے عاشق۔ لوگ گلابی موسم کہتے ہیں شاعرسے معذرت کے ساتھ
کیوں ہم سے خفا ہو گئے اے جانِ تمنا
’’گلابی‘‘ ہوئے موسم کا مزہ کیوں نہیں لیتے
مزہ کیا خاک لیں ابھی اس موسم کے ساتھ سموگ نے بھی آفت مچائی ہوئی ہے۔ دیکھنا محال ہونے کے ساتھ ساتھ اس دھند کی وجہ سے سانس لینا بھی دشوار ہو گیا ہے۔ بیماریاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ترجمان خوش بیان جو اکثر جذبات میں آ کر تلخ بیان بن جاتے ہیں (بدزبان کہہ کر کسی بیمار کو پریشان کرنا درست نہیں) گزشتہ روز سینے کی جکڑ اور سانس کی تکلیف کی وجہ سے سروسز ہسپتال میں داخل ہو گئے ہیں۔ وی آئی پی روم میں ان کی بہت اچھی دیکھ بھال ہو رہی ہے پنجاب میں ان کی اپنی حکومت ہے اس لیے ڈاکٹر بھی دل و جان سے ان کی صحتیابی کے لیے کوشاں ہیں۔ مگر ان کے مخالفین کہہ لیں یا حاسدین کچھ اور کہانی سنا رہے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وہ کسی کیس میں بلوچستان پولیس کو مطلوب ہیں جو اتنی تیز ہے کہ اسلام آباد سے اعظم سواتی جیسے دبنگ رہنما کو اچک کر لے گئی۔ شہباز گل اگرچہ خود بھی شہباز ہیں مگر وہ اب ایک بار پھر حوالات یا جیل جانے کے موڈ میں نہیں ایک ہی تجربے کو کافی خیال کرتے ہوئے انہوں نے فوری طور پر ہسپتال میں داخلہ لے لیا ہے وہ بھی لاہور میں تاکہ بلوچستان کی پولیس انہیں آسانی سے شکار نہ کر سکے۔ دروغ برگردن راوی۔
٭٭٭٭٭
آئرلینڈ میں 2 کروڑ سالانہ تنخواہ لینے والا کام نہ لینے پر کمپنی سے ناراض
یہ ہوتی ہے قوم اس طرح کی قومیں ترقی کرتی ہیں جن کے افراد خود کو قوموں کے مقدر کا ستارہ ثابت کرتے ہیں۔ ورنہ ہم تو آج تک علامہ اقبال کے شعروں کو صرف محفل گرمانے کے لیے پڑھتے ہیں۔ ان پر عمل کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ اب آئرلینڈ کے اس کمپنی ملازم کو دیکھ لیں وہ پاکستانی کرنسی کے مطابق وہاں سے سالانہ 2 کروڑ روپے تنخواہ وصول کرتا ہے۔ اسے تو چاہیے تھا کہ اپنے کام سے کام رکھتا جو یا جتنا کام آتا ہے کرتا اور باقی وقت اپنے آرام دہ دفتر میں بیٹھ کر وہی کچھ کرتا جو ہمارے ہاں کے بابو کرتے ہیں۔ ہنسی مذاق، گپ شپ، موبائل فونز پر مصروف رہنا۔ کام کاج سے جان چھڑانا، بے وقت آنا اور بے وقت دفتر سے جانا، سائلوں سے اور دفتری فائلوں سے جان چھڑانا۔ مگر افسوس ہے اس شخص نے کفران نعمت کرتے ہوئے پرسکون دفتر میں کام نہ ہونے پر اُلٹا اپنی ہی کمپنی کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا کہ مجھے کام نہیں دے رہی۔ اسے اگر صرف سیٹی بجانے والے اس کام سے چڑ ہے تو اس نے یہ نوکری قبول ہی کیوں کی تھی وہ بھی اس پرکشش تنخواہ پر اب ویلے بیٹھ بیٹھ کر پریشان ہو رہا ہے۔ بات مقدمے بازی تک جا پہنچی ہے تو اب کمپنی والوں کو چاہیے کہ انتقاماً اسے کسی ایسی جگہ ڈیوٹی پر لگائیں جہاں ہر وقت اسے مصروف رہنا پڑے اور اسے چھٹی کا دودھ یاد آ جائے۔ پھر یہ خود
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
کہتے ہوئے روتا پایا جائے گا اور پہلی والی نوکری پر بحالی کی درخواستیں دیتا پھرے گا۔
٭٭٭٭٭
پی ایچ اے میں 18 لاکھ لگائے گئے درختوں کا ریکارڈموجود نہیں
اب معلوم نہیں یہ درخت کہاں گئے۔ حکومت پنجاب سے اگر اس بارے میں سوال کیا گیاتو وہ سارا ملبہ عثمان بزدار پر ڈال کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرے گی۔ اس لیے ہم صرف اتنی بات پی ایچ اے والوں سے ضرور پوچھ سکتے ہیں کہ جناب جان کی امان پائیں تو عرض کریں کہ آپ نے ماضی میں 20 لاکھ درخت لگانے کا دعویٰ کیا تھا تاکہ سموگ کے مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔ مگر اب پتہ چلا ہے وہ بھی آپ کے چیئرمین کی زبانی کہ ان 20 لاکھ میں سے 18 لاکھ درختوں کا ریکارڈ ہی نہیں ہے یعنی وہ وجود ہی نہیں رکھتے تو پھر کہاں گئے یہ سو دو سو ہوتے تو رو پیٹ کر صبر کر لیا جاتا یہ تو 18 لاکھ درختوں کا مسئلہ ہے۔ کیا یہ ہوا میں لگائے گئے یا صرف دفتری فائلوں میں کہ لاہور شہر میں تو صرف 2 لاکھ کا سراغ ملتا ہے باقی کسی کا نہیں۔ 4 سال میں لگنے والے یہ 20 لاکھ درخت کہاں گئے ہیں۔ ان پر جو رقم صرف ہوئی اس کا حساب کون دے گا۔ یہ ایک اہم منصوبہ تھا جو اس خطرناک سموگ کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا تھا۔ مگر اس میں بھی یار دوستوں نے بلین ٹری والے منصوبے کی طرح ایسی ڈنڈی ماری کہ اب ریکارڈ ہی نہیں مل رہا۔ اگر یہ درخت لگے ہوتے تو آج لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہو کر ہمیں شرمندہ نہ کر رہا ہوتا یہ باغوں کا شہر آج آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست ہے اور مسلسل نمبر ون کا اعزاز حاصل کر رہا ہے۔
٭٭٭٭٭