وزیراعظم شہباز شریف نے ڈیم نہ بناکر ملک کو اندھیروں میں ڈبونے اور ملک کو بحرانوں کی نذر کرنے کا خوش آئند اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ 1975ء سے لیکر آج تک جتنی حکومتیں آئی ہیں‘ انہوں نے ڈیموں کی تعمیر پر توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے آج ملک اندھیروں اور بدترین بحرانوں کا شکار ہے۔ وزیراعظم کا یہ اعتراف قابل تعریف ہے لیکن اب اس بدترین نااہلی پر رجوع کرنے کا وقت ہے اور سیاستدانوں کو اپنے رویئے تبدیل کرنے ہوں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ڈکٹیٹرز نے تو پھر بھی ڈیم‘ نہریں اور دریاؤں پر پل بنائے اور ملک میں کئی بڑے کام ہوئے‘ لیکن بدقسمتی سے سیاستدانوں نے ملک کے ساتھ کھلواڑ کی۔ سیاستدان قوم کے بہترین مفاد کے کسی بھی منصوبے پر اتفاق رائے پیدا نہ کرسکے اور ہمیشہ ایک دوسرے کی کردار کشی کرکے ملک کو بحران در بحران کا شکار کئے رکھا۔ آج حالت یہ ہے کہ دنیا بھر میں بہترین قدرتی آبی وسائل رکھنے والا ملک پانی کے بدترین بحران سے دوچار ہے اور خوراک میں خودکفالت خواب بن گئی ہے حالانکہ ہم اپنے ملک کے قدرتی آبی وسائل سے استفادہ کرتے تو دنیا بھر کو خوراک برآمد کرتے لیکن آج ہم دنیا کی غیر معیاری گندم مہنگے داموں درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔
بروقت بڑے ڈیموں کی تعمیر سے ہم بجلی کی پیداوار میں بھی دوسرے ملکوں کو بجلی فروخت کرنے کی پوزیشن میں ہوتے لیکن بدقسمتی سے ہم بجلی کی پیداوار کے لئے سالانہ بھاری نقصانات کا شکار ہونے کے باوجود ملک بھر میں بلاتعطل بجلی کی فراہمی میں یکسر ناکام ہیں اور خطے میں مہنگی ترین بجلی بھی ضروریات کے مطابق پیدا کرنے اور زراعت کے لئے وافر پانی کی فراہمی سے عاری ہیں جبکہ مون سون میں آدھا ملک دریا برد کردیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اپنے ماضی کی حماقتوں سے سبق سیکھنے کے لئے قطعی تیار نہیں ہیں اور ملک کو ایسے حالات سے دوچار کردیا گیا ہے کہ آج محب وطن تمام پاکستانی جھولیاں پھیلا کر بد دعائیں مانگنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ اے اﷲ!جس جس سیاستدان نے بھی ملک کو ان بحرانوں سے دوچار کیا ہے‘ اسے نشان عبرت بنادے اور اگر اب بھی ملک کو یہاں تو پہنچانے والے سیاستدان اپنے کئے پر پشیمان ہوکر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئے مخلص نہیں ہیں تو ان کی نسلوں کو نیست و نابود کردے۔
جب تربیلا ڈیم بنا تھا اس کے فوری بعد انتہائی سستا دور تھا جب کالا باغ ڈیم کی تعمیری لاگت 7ارب ڈالر کے لگ بھگ تھی تو فوری طور پر منڈا ڈیم‘ اکھوڑی ڈیم‘ کالا باغ ڈیم اور مختلف ڈیم بنائے جاتے۔ میرے خیال سے یہ سارے ڈیم ملاکر اس وقت 15ارب ڈالرز میں تعمیر ہوجاتے اور پاکستان پانی و بجلی کی ضرورت میں خودکفیل ہوجاتا۔اب بھی وقت ہے کہ بی او ٹی کی بنیاد پرعالمی معاہدے کرکے زیادہ سے زیادہ آبی ذخائر اور ہائیڈل پاور پروجیکٹس کی تعمیر ہنگامی بنیادوں پر شروع کردی جائے۔
بطور مجموعی سیاستدانوں نے اپنی انا اور ضد کی خاطر ملک کو معاشی بحران‘ توانائی بحران‘ پانی بحران‘ خوراک بحران‘ سیاسی بحران سمیت صرف بحران ہی بحران عطا کئے ہیں اور اپنے ذاتی اقتدار کی خاطر یہ سیاستدان مسلسل قوم کا نقصان کرتے چلے آئے ہیں۔ سیاستدانوں کا یہ نظریہ رہا ہے کہ اسی وقت ملک اور جمہوریت مستحکم ہوگی جب ہم خود اقتدار میں ہوں گے ورنہ ملک اور جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں اور کبھی بھی یہ وسیع تر قومی یکجا نہیں ہوئے‘ جب کبھی اگر یکجا ہوئے بھی ہیں تو صرف اپنے ذاتی اقتدار کی خاطر۔ قوم کو اب اندازہ بھی ہوچکا ہے کہ ملک کو یہاں تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے۔
سب سے پہلے قومی اسمبلی میں بین الصوبائی دریائی پانی کی تقسیم کا نیا فارمولا طے کرکے اسے آئینی شکل دی جائے اور صوبوں کے اس آئینی حق پر ہر صورت عملدرآمد ہونا چاہئے۔ خصوصاً سندھ صوبے کی نہری پانی کی سال بھر کی ضرورت کی بروقت بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔ بے نظیر بھٹوشہید نے کالا باغ ڈیم کا نام تبدیل کرکے ’’انڈس ڈیم‘‘ رکھ کر تعمیر پر آمادگی ظاہر کردی تھی۔ اب بھی میرا دل کہتا ہے کہ اس طرح کا دلیرانہ فیصلہ پیپلزپارٹی ہی کرسکتی ہے اور انشاء اﷲ کرے گی۔ پیپلزپارٹی کی ایک سیاسی اور دلیرانہ فیصلے کرنے کی تاریخ ہے۔ اس جماعت نے لاشیں اٹھائیں لیکن کبھی بھی پاکستان توڑنے کی بات نہیں کی۔ آج لوگ صرف اقتدار سے الگ ہوتے ہیں اور پاکستان توڑنے کی دھمکیاں دینے لگتے ہیں۔ کیا قوم کو یاد نہیں کہ ایٹمی پروگرام کی بنیاد کس جماعت کی لیڈرشپ نے رکھی؟ بھٹو شہید ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان لائے اور برملا اعلان کیا کہ ہم ایٹمی صلاحیت حاصل کریں گے‘ چاہے ہمیں گھاس کھاکر بھی گزارہ کرنا پڑے۔ آج الحمدﷲ پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بن چکا ہے تو اس کی بنیادی وجہ بھٹو شہید کا وہ دلیرانہ اور تاریخی فیصلہ ہی تھا کہ آج بھارت جوکہ ہم سے کئی گنا بڑا ملک ہونے کے باوجود پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں رکھتا۔
اسی طرح قوم کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ 2013ء میں زرداری صاحب کی حکومت کے آخری دنوں میں ایران گیس پائپ لائن کا تاریخی معاہدہ کیا گیا اور اس دلیرانہ فیصلے پر عملدرآمد کرلیا جاتا تو آج پاکستان توانائی کے موجودہ بحران کا شکار نہ ہوتا لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت جانے کے تقریباً ایک عشرے بعد تک پاکستان میں آنیوالے حکمرانوں کو ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کرنے کی جرات نہیں ہوئی حالانکہ ایران نے طویل عرصہ قبل ہی اپنی حدود میں گیس پائپ لائن مکمل کررکھی ہے لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے اپنی حدود میں گیس پائپ لائن کی تکمیل تو کجا‘ نام تک لینے کی جرأت نہیں کی۔جو بھی سیاسی لیڈر یہ جرات مندانہ اقدام کرلے گا‘ وہ پاکستان کی تاریخ میں امر ہوجائے گا ۔
٭…٭…٭