انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی حقیقت

Dec 08, 2022


پاکستان میں انتخابات اور دھاندلی کے الزامات لازم و ملزوم ہیں۔ ہارنے والا اپنی ہار تسلیم کرنے کی بجائے دھاندلی کا شور مچادیتا ہے۔ اپنی ہار تسلیم کرنے کا رواج ہی نہیں ہے۔ 1971ء سے لے کر 2018ء تک پاکستان میں درجن بھر عام انتخابات کرآئے گئے، مگر ہر انتخابات کے موقع پر الیکشن ہارنے والی سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات عائد کیے، 2013ء کے انتخابات کو تحریک انصاف نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ تحریک انصاف کے ایما اور مطالبہ پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب ناصر الملک کی سربراہی میں ایک تین رکنی اعلی عدالتی کمیشن نے انتخابات میں عمران خان کی طرف سے منظم دھاندلی کے الزامات کا جائزہ لیا۔ سپریم کورٹ کے اس کمیشن نے منظم دھاندلی کے ثبوت نہ ملنے کی بات کی، البتہ تکنیکی نوعیت کی بے ضابطگیوں کا ذکر ضرور کیا۔مگر انتخابات میں منظم دھاندلی کا الزام سو فیصد جھوٹ نکلا۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ جن امور کو دنیا میں دھاندلی نہیں سمجھا جاتا، پاکستان میں انہیں بدترین دھاندلی گردانا جاتا ہے۔ جس طرح من مرضی کی حلقہ بندیاں، بے جا ذاتی روپے پیسے کا استعمال ، سرکاری خزانہ سے ترقیاتی کاموں کی تکمیل، اپنے فائدے کے لیے انتخابی قوانین بنانا وغیرہ۔ امریکہ میں حکمران سیاسی جماعت اپنی مرضی سے حلقہ بندیاں کرتی ہے، اسے Gerrymandering کہا جاتا ہے۔  حلقوں کی کانٹ چھانٹ اس انداز سے کی جاتی ہے تاکہ الیکشن میں اپنی مرضی کا حلقہ بناکر کامیابی کو یقینی بنایا جائے۔ امیدواروں کو عوام کے ٹیکسوں سے جمع کیا گیا سرکاری خزانہ کا پیسہ دیا جاتا ہے، اور یہ قانونی طور پر جائز ہے ، تاکہ وہ الیکشن لڑیں، جو امیدوار سرکاری رقم نہ لیں تو انہیں پوری آزادی ہوتی ہے کہ جتنی مرضی چاہیں رقم خرچ کریں، الیکشن میں اخراجات کی کوئی حد مقرر نہیں۔ اسی طرح منتخب ارکان ترقیاتی کاموں کے لیے جتنی چاہے گرانٹ منظور کراسکتے ہیں، ان کے اپنے حلقوں میں ایک کام بھی ایسا نہیں جو صرف اس لیے نہ ہوسکے کہ پیسہ نہیں تھا۔ پارٹی رہنماؤں یا گورنرز اور وزیروں پر کوئی پابندی نہیں ہوتی کہ وہ الیکشن مہم میں حصہ نہ لیں۔ کوئی نگران حکومت نہیں بنائی جاتی، حکمران جماعت ہی الیکشن کرواتی ہے۔ مگر اس کے باوجود دھاندلی کا اتنا شورشرابہ سننے کو نہیں ملتا، جتنا پاکستان میں ہر الیکشن کے بعد ہوتا ہے۔ 
انتخابات میں دھاندلی عجیب شے ہے کہ پورے ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ہزار سے زیادہ امیدوار منتخب ہوتے ہیں اور ان میں سے دھاندلی صرف ہارنے والے کے ساتھ ہوتی ہے، کبھی جیتنے والا نہیں کہتا کہ میرے ساتھ بھی دھاندلی ہوئی ہے۔ ایک عام بیانیہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ انتخابات میں دھاندلی کراتی ہے، جسے چاہتی ہے الیکشن میں جتا دیتی ہے اور جسے چاہتی ہے ہروادیتی ہے۔ یا یہ بیانیہ کہ پاکستان کے ہر الیکشن میں دھاندلی کرائی گئی۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں۔ اور نہ ہی آج تک ان باتوں کو ثابت کیا جاسکا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں جہاں الیکشن ہار جائیں وہاں دھاندلی کا شور مچاتی ہیں، مگر جہاں الیکشن جیت جائیں وہاں وہی الیکشن صاف شفاف ہوتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کا خوب شور مچایا، مگر خیبر پختونخواہ میں الیکشن جیت کر حکومت بنائی ، مگر وہاں دھاندلی کی بات نہیں کی۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی ہر بار الیکشن  جیت کر صوبہ سندھ میں حکومت بنالیتی ہے، مگر باقی صوبوں اور مرکز میں دھاندلی کا رونا روتی ہے۔  یہ ہی طرز عمل پاکستان مسلم لیگ (ن) کا رہا کہ صوبہ پنجاب میں حکومت بناکر بیٹھے ہوتے ہیں اور گلہ ہوتا ہے کہ مرکز اور باقی صوبوں میں ان کے ساتھ دھاندلی ہوئی۔ عجیب بات ہے کہ ایک ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے جو پورے ملک میں الیکشن کرانے کا ذمہ دار ہے، جو جہاں سے جیت جائے وہاں الیکشن ٹھیک اور جہاں سے ہار جائے وہاں دھاندلی ہوئی ہے۔ 
پاکستان کے انتخابی قوانین اور عملی طریقہ کار کا جائزہ لیں تو اس امر کو یقینی بنایا گیا ہے کہ انتخابات منصفانہ ہوں۔ ووٹرز کی رجسٹریشن سے لے کر ووٹ ڈالنے اور گنے جانے تک کے تمام مراحل صاف اور شفاف انداز سے سرانجام پاتے ہیں۔ حلقہ بندیوں کا کام قانون کے مطابق سر انجام پاتا ہے۔ شکایات کی صورت میں معاملات سپریم کورٹ تک چلے جاتے ہیں۔ ووٹر رجسٹریشن کے پراسیس کو سیاسی جماعتیں اور ان کے متوقع امیدوار بڑے غور سے مانیٹر کرتے ہیں۔ غلط ووٹوں کا اندراج ناممکن بنادیا گیا ہے۔ نادراکے کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا کو ووٹرز رجسٹریشن سے منسلک کیا گیا ہے۔ انتخابی فہرست میں شناختی کارڈ کے ساتھ ساتھ ووٹر کی تصویر بھی چسپاں ہوتی ہے۔ پولنگ کا عملہ جس میں پریزائڈنگ آفیسر اور اسسٹنٹ پریزائڈنگ آفیسرز نہایت آسانی سے ایک جائز ووٹر کی تصدیق کرسکتے ہیں۔ الیکشن کا سارا عمل امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کے اپنے نامزد پولنگ ایجنٹس کی نظر وں کے سامنے تشکیل پاتا ہے۔ تربیت یافتہ پولنگ ایجنٹس کی موجودگی میں کسی قسم کی دھاندلی یا ہیرا پھیری کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔  ووٹرز اور پولنگ عملہ کی حفاظت کے لیے  عدلیہ، پولیس، رینجرز، اور فوج کا عملہ موجود ہوتا ہے۔ پرامن الیکشن کا انعقاد مقامی یا ضلعی انتظامیہ کی بھی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ 
انتخابات کا عمل ایک ایسی سرگرمی ہوتی ہے جس میں ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد کی شمولیت ہونا ہوتی ہے، اس لیے چند ایک جگہ ناخوشگوار صورت حال کا پیدا ہوجانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ چھوٹی موٹی بے ضابطگیاں بھی ہوسکتی ہیں جنہیں نظر انداز کیا جانا چاہیے۔ جہاں کہیں معمول سے ہٹ کر بے ضابطگی ہوجائے وہاں الیکشن کمیشن یا پھر عدلیہ دوبارہ انتخابات کا حکم بھی دے سکتی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر الیکشنز منصفانہ ہوتے ہیں۔ ہار جانے کے بعد دھاندلی کا واویلہ کرنا، عوام کے مینڈیٹ کی تو ہین کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ الیکشن کے اختتام پر بعداز انتخاب دھاندلی کا امکان یوں ہوتا ہے کہ حکومتوں کی تشکیل کے مرحلہ پر آزاد امیدواروں کو ایک مخصوص سیاسی جماعت میں شمولیت کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اور اگر مخلوط حکومت کا امکان ہو تو چھوٹی سیاسی جماعتوں کو بھی ممکنہ حکومتی اتحاد میں شامل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کو سیاستدان اور سیاسی جماعتیں ہمیشہ طاقتور حلقوں کے کھاتہ میں ڈالتے ہیں، مجال ہے جو اپنی کمزوری یا غلطی کا اعتراف کریں۔

مزیدخبریں