قرآن محتشم کا ایک ایک حرف اتنی زبردست ترتیب اور اتنے حساب و کتاب کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم ھے کہ اسے تھوڑا سا ادھر ادھر کرنے سے وہ ساری ترتیب درھم برھم ہوجاتی ھے جس کے ساتھ قرآنِ پاک کی اعجازی شان نمایاں ھے۔ اتنی بڑی کتاب میں اتنی باریک بینی سے ترتیب کا کوئی رائٹر تصور بھی نہیں کرسکتا۔ بریکٹس میں دئیے گئے یہ الفاظ بطور نمونہ ہیں ورنہ قرآن کا ہر لفظ جتنی مرتبہ استعمال ہوا ھے وہ تعداد اور اس کا پورا بیک گراو¿نڈ اپنی جگہ خود علم و عرفان کا وسیع خزانہ ھے۔ دنیا کا لفظ اگر 115 مرتبہ استعمال ہوا ھے تو اس کے مقابل آخرت کا لفظ بھی 115 مرتبہ ہی استعمال ہوا ھے۔ وعلی ھذ القیاس (دنیا وآخرت: 115 ) (شیاطین و ملائکہ: 88 ) ( موت وحیات: 145 ) (نفع و فساد: 50 ) (اجر فصل: 108 ) (کفر و ایمان :25 ) (شہر: 12 ) کیونکہ شہر کا مطلب مہینہ اور سال میں 12 مہینے ہوتے ہیں ( یوم کا لفظ 360 مرتبہ استعمال ہوا ھے اتنی بڑی کتاب میں اس عددی مناسبت کا خیال رکھنا کسی بھی انسانی مصنف کے بس کی بات نہیں۔ جدید ترین ریسرچ کے مطابق قرآن حکیم کے حفاظتی نظام میں 19 کے عدد کا بڑا عمل دخل ھے، اس حیران کن دریافت کا سہرا ایک مصری ڈاکٹر راشد خلیفہ کے سر جاتا ھے جو امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر تھے، 1968 میں انہوں نے مکمل قرآنِ پاک کمپیوٹر پر منتقل کرنے کے بعد قرآنِ پاک کی آیات ان کے الفاظ و حروف میں کوئی تعلق تلاش کرنا شروع کردیا رفتہ رفتہ اور لوگ بھی اس ریسرچ میں شامل ہوتے گئے حتی کہ 1972 میں یہ ایک باقاعدہ سکول بن گیا، ریسرچ کا کام جونہی آگے بڑھا ان لوگوں پر ہر قدم حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، قرآنِ حکیم کے الفاظ و حروف میں انہیں ایک ایسی
حسابی ترتیب نظر آئی جس کے مکمل ادراک کیلئے اس وقت تک کے بنے ہوئے کمپیوٹر ناکافی تھے۔ کلام اللہ میں 19 کا ہندسہ صرف سورہ مدثر میں آیا ھے جہاں اللہ نے فرمایا: دوزخ پر ہم نے انیس محافظ فرشتوں کو مقرر کر رکھا ھے اس میں کیا حکمت ھے یہ تو اللہ تعالی ہی بہتر جانتے ہیں لیکن اتنا اندازہ ضرور ہوجاتا ھے کہ 19 کے عدد کا تعلق اللہ کے کسی حفاطتی نظام سے ھے۔ پھر ہر سورہ کے آغاز میں قرآنِ مجید کی پہلی آیت بسم اللہ کو رکھا گیا ھے گویا کہ اس کا تعلق بھی قرآن کی حفاظت سے ھے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں بسم اللہ کے کل حروف بھی 19 ہی ہیں پھر یہ دیکھ کر مزید حیرت میں اضافہ ہو چاتا ھے کہ بسم اللہ میں ترتیب کے ساتھ چار الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ان کے بارے میں ریسرچ کی تو ثابت ہوا کہ اسم پورے قرآن میں 19 مرتبہ استعمال ہوا ھے لفظ الرحمن 57 مرتبہ استعمال ہوا ھے جو 3×19 کا حاصل ھے اور لفظ الرحیم 114 مرتبہ استعمال ہوا ھے جو 6×19 کا حاصل ھے، لفظ اللہ پورے قرآن میں 2699 مرتبہ استعمال ہوا ھے جو 142×19 کا حاصل ھے لیکن یہاں بقیہ ایک رہتا ھے جس کا صاف مطلب ھے کہ اللہ کی ذات پاک کسی حساب کے تابع نہیں ھے وہ یکتا ھے قرآن مجید کی سورتوں کی تعداد بھی 114 ھے جو 6×19 کا حاصل ھے سورہ توبہ کے آغاز میں بسم اللہ نازل نہیں ہوئی لیکن سورہ نمل آیت نمبر 30 میں مکمل بسم اللہ نازل کرکے 19 کے فارمولا کی تصدیق کردی اگر ایسا نہ ہوتا تو حسابی قاعدہ فیل ہوجاتا۔
اب آئیے حضور پاک پر نازل ہونے والی پہلی وحی کی طرف : یہ سورہ علق کی پہلی 5 آیات ہیں اور یہیں سے 19 کے اس حسابی فارمولے کا آغاز ہوتا ھے، ان 5 آیات کے کل الفاظ 19 ہیں اور ان 19 الفاظ کے کل حروف 76 ہیں جو ٹھیک 4×19 کا حاصل ھے لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی جب سورہ علق کے کل حروف کی گنتی کی گئی تو عقل ورطہ حیرت میں ڈوب گئی کہ اسکے کل حروف 304 ہیں جو 4×4×19 کا حاصل ہیں، عقل یہ دیکھ کر حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں مزید ڈوب جاتی ھے کہ قرآنِ پاک کی موجودہ ترتیب کے مطابق سورہ علق قرآن پاک کی 96 نمبر سورة ھے اب اگر قرآن کی آخری سورت والناس کی طرف سے گنتی کریں تو آخر کی طرف سے سورہ علق کا نمبر 19 بنتا ھے اور اگر قرآن کی ابتدا سے دیکھیں تو اس 96 نمبر سورت سے پہلے 95 سورتیں ہیں جو ٹھیک 5×19 کا حاصل ضرب ہیں جس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ سورتوں کے آگے پیچھے کی ترتیب بھی انسانی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حسابی نظام کا ہی ایک حصہ ھے، قرآنِ پاک کی سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت سورہ نصر ھے یہ دیکھ کر آپ پر پھر ایک مرتبہ خوشگوار حیرت طاری ہوگی کہ اللہ پاک نے یہاں بھی 19 کا نظام برقرار رکھا ھے پہلی وحی کی طرح آخری وحی سورہ نصر ٹھیک 19 الفاظ پر مشتمل ھے یوں کلام اللہ کی پہلی اور آخری سورت ایک ہی حسابی قاعدہ سے نازل ہوئیں۔ سورہ فاتحہ کے بعد قرآن حکیم کی پہلی سورت سورہ بقرہ کی کل آیات 286 ہیں 2 ہٹادیں تو مکی سورتوں کی تعداد سامنے آتی ھے 6 ہٹا دیں تو مدنی سورتوں کی تعداد سامنے آتی ھے۔ 86 کو 28 کے ساتھ جمع کریں تو کل سورتوں کی تعداد 114 سامنے آتی ھے۔آج جب کہ عقل وخرد کو سائنسی ترقی پر بڑا ناز ھے یہاں پھر قرآن پاک اپنا چیلنج دہراتا ھے حساب داں، سائنسدان، ہر خاص وعام مومن کافر سبھی سوچنے پر مجبور ہیں کہ آج بھی کسی کتاب میں ایسا حسابی نظام ڈالنا انسانی بساط سے باہر ھے طاقتور کمپوٹرز کی مدد سے بھی اس جیسے حسابی نظام کے مطابق ہر طرح کی غلطیوں سے پاک و مبراءکسی کتاب کی تشکیل ناممکن ھے لیکن چودہ سو سال پہلے تو اس کا تصور ہی محال تھا لہذا کوئی بھی صحیح العقل آدمی اس بات کا انکار نہیں کرسکتا کہ قرآنِ کریم کا حسابی نظام اللہ کا ایسا شاہکار معجزہ ھے جس کا جواب قیامت تک کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔