اسے کہہ دو   نومبر جاچکا ہے 


بات نومبر کی تھی،نومبر کے لئے تھی اور نومبر تک تھی،ایک نومبر سے شروع ہوئی اور دوسرے نومبر میں آکر ختم ہوگئی۔ ایک سال پہلے کی ہی بات ہے جن سے آج فوری انتخابات کا مطالبہ ہورہا ہے۔ ان کا بھی یہی مطالبہ تھا اور جو آج فوری انتخابات کو ملک اور وقت کی اہم ترین ضرورت اور مسائل کا واحد حل قرار دے رہے ہیں وہ اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے آئینی ،قانونی ،سیاسی، اخلاقی ہر قسم کے حوالے دے رہے تھے۔۔ان ہاو¿س تبدیلی کی بات ہوئی تو حکومتی وزرا مکے لہرا لہرا کر کہنے لگے کہ ہمت ہے تو تحریک اعتماد لاکر دکھائیں۔ پھر تحریک عدم اعتماد آگئی اب وہی وزرا ڈائس بجا بجا کر کہنے لگے کہ کسی کے باپ میں بھی ہمت نہیں کہ نمبرز پورے کرے اور تحریک کامیاب کر اسکے۔ وزیر اعظم تو محرکین کے شکر گزار ہوگئے اور یہاں تک کہا کہ انہوں نے شکرانے کے نفل ادا کیے جب انہیں اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کا پتا چلا۔ اور پھر کہا کہ مخالفین ان کی بندوق کی نشست یعنی شدت پر آگئے ہیں اور اب نہیں بچ سکیں گے۔ بیان بازیاں اور جوڑ توڑ بھی چلتے رہے کامیابی ،ناکامی کے دعووں کے ساتھ ہارس ٹریڈنگ کے الزامات سامنے آئے۔ سرپرائز کے دعوے ہوتے رہے پھر اچانک امریکی سازش کا بیانیہ بھی آیا۔ ہمیشہ کھیل میں نیوٹرل ایمپائرز متعارف کرانے کا کریڈٹ لینے والے کہنے لگے کہ انسان تو نیوٹرل ہوہی نہیں سکتا، جانور ہی ہوتا ہے جو نیوٹرل رہ سکتا ہے۔ پھر سپیکر کی رولنگ کے زریعے تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کی ناکام کوشش
 کی گئی حکومت چلی گئی تو جلسے جلسے کا کھیل شروع ہوگیا ،غدار ،میر جعفر او ر میر صادق کے فتوے جاری کئے جانے لگے۔ امریکہ اور عالمی قوتوں کو رجیم چینج سازش میں ملوث قرار دے دیا گیا۔ مخالف فیصلوں پر عدلیہ پر تنقید اور حق میں فیصلوں پر داد تحسین دی جاتی رہی۔ دارالحکومت پر یلغار کی کوشش ہوئی اور دوبارہ پوری طاقت اور صوبائی حکومتوں کی مدد سے چڑھائی کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ سب کچھ اتنا جلد بازی میں ہورہا تھا کہ سمجھ آنے لگی کہ سب نومبر کی اہم تقرریوں پر اثر انداز ہونے کے لیے کیا جارہا ہے۔ جس کی پہلے تو تردید ہوئی کہ ہمیں اس سے کوئی غرض ہی نہیں بعد میں میرا، تمہارا کہہ کر اس پر کھل کربات کی جانے لگی ۔ سادہ ،قانونی اور حساس ادارہ جاتی معاملات کو تنازعات میں الجھانے کی کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہ جن پر حکومت گرانے کے الزامات لگائے گئے اپنے مقاصد کے لیے انہی کے عہدے میں توسیع کی تجویز بھی دی گئی۔ اسلام آباد کی جانب مارچ کی دھمکیاں دی جاتی رہیں اور پھر اچانک نومبر میں ہی مارچ کے اسلام آباد پہنچنے کا اعلان ہوا تو بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ اور جب لوگوں کو راولپنڈی اور وہ بھی مخصوص تاریخوں میں پہنچنے کی ہدایت کی گئی تو پھر تو کوئی لگی لپٹی نہ رہی۔ لیکن اس سے پہلے ہی تقرریاں ہوگئیں تو خاموشی سے مارچ بھی ختم کردیا گیا۔ 
اور جاتے جاتی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ بھی سنادیا گیا وہ بھی بغیر مشاورت کے اور قوم کا بتایا گیا کہ اس پر مشاورت اعلان کے بعد شروع ہوگی۔ جب مشاورت ہوئی تو سمجھایا گیا کہ جو حکومتیں پاس ہیں وہ بھی چھوڑ دیں تو بچے گا کیا۔ تین ماہ کے لئے نگران حکومت آجائے گی۔ آپ کا اثرو رسوخ ختم ہوجائے گا نہ موجودہ پروٹوکول جاری رہے گا نہ کوئی اور حکومتی سہولت اور فائدہ۔اور لگتا نہیں کہ مرکزی حکومت ملک بھر میں الیکشن کرائے گی۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی ایمرجنسی کو جواز بنا کر انتخابات کو آگے لے جانے کا آئینی آپشن استعمال کرلیا جائے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معاشی صورتحال کو ہی جواز بنا لیا جائے۔ ارکان نے بھی بتایا کہ وہ اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام ادھورے نہیں چھوڑنا چاہتے۔ یہ منصوبے آخری سال میں ہی مکمل کئے جاتے ہیں تاکہ اگلے انتخابات میں ووٹ پکے ہوسکیں ،جب یہ ساری صورتحال مشاورت میں سامنے آئی تو دوسروں کو دیا گیا سرپرائز خود کو ہی سرپرائز لگنے لگا ہے۔جنہیں پارٹی میں اختلاف کے باوجود وزیر اعلی بنایا انہوں نے بھی فوج مخالف بیانیے سے کھل کر اختلاف شروع کردیا ظاہر ہے جنہیں شاید آخری بار صوبے میں حکومت کا موقع ملا ہے وہ اسے وقت سے پہلے کیوں چھوڑ دیں گے۔ بلکہ وہ تو چاہیں گے کہ مقررہ وقت سے بھی زیادہ موقع مل جائے ،، تو حالات پھر کروٹ کھاتے دکھائی دے رہے ہیں پھر کوئی یوٹرن لینا پڑسکتا ہے لیکن یہ تو وہ پہلے بتا چکے ہیں کہ یوٹرن لینا تو عظیم لیڈروں کی نشانی ہے۔ تو پھر ایک اور یوٹرن سے کیا فرق پڑے گا ۔درحقیقت اصل کہانی نومبر کی تھی جو گزشتہ نومبر میں ایک تقرری پر سینگ پھسانےسے شروع ہوئی اور اس نومبر کی اہم تقرریوں پر ختم ہوگئی ۔امریکی سازش ،میر جعفر ،میر صادق ،غدار غدار کا بیانیہ انہی دو نومبر وں کے بیچ میں شروع ہوا اور دم بھی توڑ گیا۔اور اب تو دسمبر شروع ہوچکا ہے جس میں ہر جانب ٹھنڈ ہی ٹھنڈ دکھائی دے رہی ہے تو پھر کوئی انہیں بھی سمجھا دے کہ بھائی !!!نومبر جاچکا ہے

ای پیپر دی نیشن