آخرکار پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے سات ماہ کے بعد مہنگائی کے ستائے ہوئے شہریوں کےلئے خوشخبری سننے میں آ ہی گئی ہے جس کا لوگوں کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی بڑی بے چینی سے انتظار تھا ۔یہ خوشخبری پیڑولیم مصنوعات کی قمیتوں میں کمی کے حوالے سے ہے ۔یہ کمی پانچ سات روپے کی محض دکھلاوے کی نہیں بلکہ قریباً قریباً چالیس سے زائد روپوں کی ہونے والی ہے جس سے عوام کو ہونے والے فائدے کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ وفاقی وزیر پیڑولیم مصدق ملک نے چند دن پہلے پریس کانفرنس میںکہا کہ روس پاکستان کو رعایتی قیمت پر تیل، ڈیزل اور ایل این جی سستے نرخوں پر فراہم کرنے کےلئے تیار ہو گیا ہے بلکہ اس سلسلے میں پاکستان اور روس کے حکام میں معاملات بھی طے ہوگئے ہیں اور یہ بھی کہ توانائی معاہدوں پر پیش رفت کیلئے روس کا سرکاری وفد آئندہ ماہ جنوری میں پاکستان کا دورہ بھی کرنیوالا ہے ،وفاقی وزیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایران نے بھی انسانی بنیادوں پر دو ملین پاﺅنڈ کی ایل این جی دینے کا اعلان کیا ہے جس پر بات چیت مکمل ہو چکی ہے۔ یہ ایل این جی بھی آئندہ دس یوم کے اندر اندر پاکستان آجائیگی۔ وزیر پیٹرولیم نے اپنے کامیاب دورہ روس کے پس منظر سے آگاہ کرتے ہوئے مزید بتایا کہ وزیراعظم شہبازشریف کے نوجوانوں کو روزگار دینے کے وژن کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے روس کا حالیہ دورہ کیا ہے۔ وزیراعظم کی خواہش ہے کہ کوئی کارخانہ بند نہیں ہونا چاہیے‘ کوئی نوجوان بے روزگار نہ ہو اور کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلتا رہے کیونکہ معیشت آگے بڑھے گی تو نوجوانوں کو روزگار ملتا رہے گا۔ انکے بقول گیس پائپ لائن پر کچھ ہمارے پرانے معاہدے تھے‘ ان پر بھی روس کی طرف سے دلچسپی کا اظہار کیا گیا ہے اور ہم نے روس سے کہا ہے کہ وہ اس ضمن میں کچھ لچک کا مظاہرہ کرے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں ہر سال گیس کے ذخائر آٹھ سے دس فیصد کم ہو رہے ہیں اور اس وقت ایل این جی کا پریشر بہت زیادہ ہے۔ روس ہمیں رعایتی نرخوں پر ڈیزل اور خام تیل بھی دیگا۔ اس پر ہماری بات چیت طے ہو چکی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ماضی کی روایتی غفلت کے باعث ہماری ہائیڈل بجلی کی پیداوار میں بتدریج کمی واقع ہونے لگی جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی ڈیمانڈ بھی بڑھ گئی چنانچہ رسد اور طلب میں نمایاں فرق پیدا ہوگیا۔ متعلقہ اداروں اور حکومتوں کی ڈیمز تعمیر نہ کرنے کی عاجلانہ پالیسی کے باعث ہی تین دہائیاں قبل ملک میں توانائی کے بحران کا آغاز ہوا جو آج انتہائی گھمبیر صورت اختیار کر چکا ہے۔ سابقہ ادوار میں توانائی کے بحران سے نکلنے کیلئے نجی سطح پر مہنگے تھرمل پاور پلانٹس اور رینٹل پلانٹس پر انحصار کیا گیا جو ایک تو ملک میں بجلی کے نرخوں میں اضافے کا باعث بنے اور دوسرے ان پاور پلانٹس کے ذریعے بجلی کی مطلوبہ پیداوار بھی حاصل نہ ہو سکی جبکہ اپنی لاگت وصول کرنے کی خاطر تھرمل کمپنیوں کے مالکان پاور پلانٹس بند کرکے حکومت کو بھی بلیک میل کرتے رہے اور ملک میں توانائی کا بحران بڑھانے کا بھی باعث بنتے رہے۔ چنانچہ قطر سے ایل این جی کے حصول کا معاہدہ کیا گیا اور ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے ذریعے گیس کے حصول کا معاہدہ طے پایا مگربدقسمتی سے یہ دونوں معاہدے قابل عمل شکل اختیار نہ کرسکے ۔ قطر سے طے پانے والا معاہدہ سیاست کی نذر ہو گیا جبکہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے معاہدہ میںبعض غیر ملکی پابندیاں حائل ہو گئیں جبکہ دوسری طرف اسکے برعکس ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے نہ صرف اپنے دریاﺅں پر ڈیمز کے انبار لگا کر توانائی میں خودکفالت حاصل کی بلکہ اس نے روس اور دوسرے وسطی اشیائی ممالک سے سستی گیس کے حصول میں بھی خاصی پیش رفت کی ہے مگر اسکے برعکس ہمارے ہاں دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کے سابقہ دور حکومت میں سیاسی منافرت کی فضا گرمائی گئی تو اسکے منفی اثرات ملک کی معیشت اور عوام کی زندگیوں پر بھی مرتب ہوئے۔ سابقہ وزیر اعظم عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدہ کی شرائط پر عملدرآمد روک دیا جس کے نتیجے میںقومی معیشت کا بیساکھیوں کے سہارے کھڑے ہونا بھی مشکل ہو گیا تاہم صورتحال کے تدارک کی غرض سے عمران خان نے روس کا دورہ توکرلیا مگر اس سے ایک تو یہ دورہ متنازعہ ہوگیا تو دوسرا اس دورے کے دوران نہ تو روس نے پاکستان کو سستی گیس کی فراہمی کی کوئی پیشکش کی اور نہ ہی روس کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ طے پایا اور الٹا اس دورے کے نتیجے میں پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں سردمہری آگئی۔ اسے یقیناً ہماری قومی خارجہ پالیسی کی ناکامی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اگر پی ڈی ایم حکومت کی قومی و خارجہ پالیسیوں پر نظر داڑائی جائے تو اس میں قوم کےلئے یہ اطمینان موجود ہے کہ جتنا جلد ہوسکے عوام کو ریلیف پہنچایا جائے بلکہ خارجی سطح پر ملکی ساکھ کی بہتری کو بھی یقینی بنایا جائے اور یہ اسی عوامی سوچ کا نتیجہ ہے کہ اب وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک کے دورہ روس کے نتیجہ میں ہمیں روس کی جانب سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آتے محسوس ہو رہے ہیں اور اسی طرح ایران کے ساتھ بھی گیس اور ڈیزل کے حصول میں پیش رفت ہو رہی ہے تو اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بادی النظر میں ہماری قومی خارجہ پالیسی درست سمت کی جانب گامزن ہو چکی ہے۔ جو بھی ہو ہمیں بہرحال اپنے مفادات ہی عزیز ہیں جن پر کوئی ٹھیس لگنے کی نوبت نہیں آنے دینی چاہیے اور اقوام عالم میں برابری کی بنیاد پر خطے کے ممالک کے ساتھ ساتھ ہمیں دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ بھی مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کے حالات سازگار بنانے چاہئیں۔ ہم توانائی کے بحران سے عہدہ براہو کر ہی ملکی معیشت کو سنبھال سکتے ہیں اور عوامی اعتماد پر پورا اترا جا سکتا ہے ۔علاوہ ازیں یہ بھی کہ جب تک ملک کو سیاسی استحکام میسر نہیں آجاتا اسوقت تک اقتصادی و معاشی استحکام کا خوا ب شرمندہ تعبیر ہونا کسی صورت ممکن نہیں لہذا اس کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے خا ص کر پی ٹی آئی کوکیونکہ موجودہ سیاسی عدم استحکام کا باعث یہی جماعت تصور ہو رہی ہے ۔