سیاسی تلخیاں ، بس بہت ہوچکا


امریکہ ، چین، جاپان اور جرمنی کے بعد تقریباً 3 ہزار ارب ڈالر کے ساتھ چوتھا بڑا اقتصادی طاقت بن چکا ہے۔ بھارتی اقتصادی ترقی کی شرح کی رفتار 8.9فی صد ہے ، بنگلہ دیش کی شرح کی رفتار 7.25 فی صد ، سری لنکا کی رفتار 4.9 فی صد، افغانستان کی شرح رفتار 2.54 فی صد جبکہ اسکے بر عکس پاکستان جو ہری طاقت ہے اسکی اقتصادی ترقی کی رفتارسب سے کم یعنی 2 فی صد ہے۔ اگر ہم ایشیاءمیں خارجہ سکے کے ذخائر پر نظر ڈالیں تو بھارت کے خارجہ سکے کے ذخائر 600 ارب ڈالر، بنگلہ دیش کا 40 ارب ڈالر، نیپال کے سکے ذخائر 10 ارب ڈالر جبکہ مملکت خداداد پاکستان کے سکے کے ذخائر 7 ارب ڈالر ہے، جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر ہم مہنگائی پر نظر ڈالیں تو نیپال میں مہنگائی کی شرح 6.9 فی صد، بنگلہ دیش میں 5.4فی صد ، سری لنکا میں مہگائی کی شرح 5.4 فی صدجبکہ وطن عزیز میں مہنگائی کی اوسط شرح 12 فی صد اورگذشتہ چند مہینوں میں مہنگائی کی شرح 20 فیصد سے زیادہ رہی۔ہم مندرجہ بالا اعداد و شمار پر غور کریں تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان اس وقت انتہائی اقتصادی اور مالی نامساعد حالات کا سامنا کر رہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ اور بعد میںکئی ممالک اور ریاستیں معرض وجود میں آئیں مگر بد قسمتی سے اکثریت ممالک وطن عزیز سے اقتصادی لحاظ سے کئی چند آگے ہیں۔ پاکستان 75 سال سے حکمرانوں کی پالیسوں کی وجہ سے عدم استحکام سے دو چار رہا اور ماضی قریب میں خان حکومت کی وجہ سے مزید اقتصادی تنزلی کا شکار رہا۔ ۔ابھی پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی رشہ کشی جا ری ہے اور نہ جانے کب تک معصوم عوام کے قسمت کے ساتھ یہ کھیل جاری رہے گا۔کسی کو فکر نہیں کہ وطن عزیز کے غریب اور مفلوک الحال مملکت اور عوام کا کیا ہوگا۔سارے اقتدار کی دھکم پیل میں ایک دوسرے کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش رہے ہیں۔ جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ ہم نے عمران خان کو انگلی سے پکڑ کر چلانے کے لئے بہت کوشش کی مگر وہ ناکام رہا۔دراصل بات یہ ہے کہ اگر وہ لائق، فائق اور کمپیٹنٹ نہیں تھا تو کپتان کو کیوں سامنے لایا گیا۔ خان صاحب نے اپنے دور میں امریکی خط کا ڈرامہ کھیل کر عوام اور خاص کو جوانوں کے احساسات کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔ ابھی سابق فواد چو د ھری نے امریکی سفیر سے ملاقات کی۔میں اس بات کا اعادہ کرتا چلوں کہ خیبر پختون خوا کا صوبہ جس پر پی ٹی آئی کی گذشتہ10 سال سے حکومت ہے ۔ اس صوبے کا قرضہ 150 ارب روپے کے قریب سے ایک ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔اسی طرح وطن عزیز کا قرضہ جو نواز شریف کے اقتدار کے خاتمے پر گذشتہ 70 سال میں 30 ہزار ارب روپے تھا ۔ کپتان کے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں50 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا۔پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں یومیہ قرضہ 5ارب روپے تھا ۔ نواز شریف کے دور میں 8 ارب روپے جبکہ پی ٹی آئی کے دور میں یومیہ قرضہ 17ارب روپے تھا۔ میں پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی سے گزارش کرتا ہوں کہ 23 کروڑ عوام کے قسمت اور زندگیوں سے کھیلنا چھوڑ دیں ۔ بہت ہوچکا ہے اب پاکستان کے غریبوں کو مزید امتحان میں ڈال کر انکو مزید ذلیل اور رسوا نہ کریں۔ 

ای پیپر دی نیشن