بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com
پیار اور انسیت سے مرقع سندھ کی سرزمین کے محبان پوری دنیا میں موجود ہیں ۔ اس سرزمین سے ہماری محبت بچپن سے ہے ، تین بزرگان دین حضرت شہباز قلندرؒ، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ اور سرکارسچل سرمستؒ اس سرزمین کے عظیم صوفی شاعر ہیں جن کے افکار کی شمعیں آج بھی فروزاں ہیں ۔ بچپن سے ہی ہمارا میلان عارفانہ کلام اور صوفی ازم سے اس لئے رہاکہ والد مرحوم و مغفور ڈاکٹر بشیر احمد گورایا کا رحجان صوفی ازم کی طرف تھا۔ بنیادی طور پر وہ سائیکالوجی میں ماسٹر ڈگری ہولڈر تھے۔ دوستوں اور احباب کی بدولت وہ بھی صوفی ازم میں رنگے گئے۔ انہوں نے پہلے ایم اے پنجابی بعد میں اسی سبجیکٹ میں پی ایچ ڈی کی۔والد صاحب کے حلقہ احباب میں اکثریت شاعروں اور ادیبوں کی تھی چناچہ بچپن سے ہی ان محفلوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری عمر کا سب سے بڑا سرمایہ والد گرامی اور انکے ہم عصروں سے ملنے والا فیضان ہے۔ اس کے بعد میں خود بھی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہو گیا تو اندرون ملک اور بیرون ملک بہت سی یونیورسٹیوں میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ پچھلے دنوں ساوتھ پنجاب اور سندھ کی یونیورسٹیوں میں جانے کا اتفاق ہوا تو خیر پور میں شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ یونیورسٹی کو بھی وزٹ کرنے کا موقع ملا ۔اس وزٹ کی زیادہ اہمیت اس لئے تھی کہ شاہ عبداللطیف ؒکے مزار پر حاضر ی کا موقع ملا۔ یونیورسٹی انتظامیہ سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو پتا چلا کہ شاہ عبداللطیف ؒکا مزار تو زرا دورہے البتہ سرکار سچل سرمست ؒکا مزار قریب ہے ۔ طے ہوا کہ یونیورسٹی پروگرام کے بعد دعا کے لیے سلام عقیدت کیلئے جایا جائے گا جامعہ میں رات کو صوفی نائیٹ کا اہتمام تھا ۔دو گروپوں نے سچل سرمست کا کلام پیش کیا اس میں ایک گروپ خاص طور پر سچل سرمست ؒکے مزار سے آیا تھا اور دوسرا گروپ یونیورسٹی کے طالب علموں پر مشتمل تھا دونوں گروپوں نے زبردست کلام پڑھا کیونکہ صوفی کلام پڑھنے کے لئے ایک خاص قسم کا میوزک ہوتا جو کہ علاقائی ثقافت کو اجاگر کرتا ہے اور پھر سندھی میوزک کی اپنی ہی طرز ہوتی ہے ۔کمال دل میں اتر جانے والا کلام اور میوزک تھا اس کے بعد رات کے کھانے کا مثالی بندوبست تھا صبح سب یونیورسٹی سنڈیکیٹ روم میں میٹنگ کے لیے پہنچ گئے ۔ اجلاس سے پہلے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خلیل احمد ابوپوٹو نے یونیورسٹی کی تاریخ سے بریف کیا اور بتایا کہ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی 1979 میں بنیاد رکھی گئی، انہوں نے جب سے یونیورسٹی کا چارج لیا ہے ان کے دور میں خاص طور پر تین کام ہوئے ایک تو انہوں نے پیس اینڈ ریلیجس ٹالرنس کو باقاعدہ لازمی سبجیکٹ کے طور پر پڑھانا شروع کیا دوسرے نمبر کھجور کے بارے میں ریسرچ انسٹیٹیوٹ بنیادی طور پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا پروجیکٹ تھا جو 2005 میں شروع ہوا جو بائیو ٹیکنولوجی اور ٹشو کلچر کے بارے میں تھا اسے مکمل طور پر فعال کیا ۔ ایچ ای سی کے تعاون سے کھجور کی ریسرچ پر بہت ہی زبردست لیبارٹریز ہیں اور 300 سے زائد کھجور کی اقسام پر کام ہو رہا ہے ۔وائس چانسلر نے مزید بتایا کہ 1976 میں یہ درسگاہ سندھ یونیورسٹی کے شیلٹر تلے کیمپس کی صورت میں سرگرم رہی 1987ء میں کمپیس کو باقائدہ یونیورسٹی کا درجہ ملا ۔ (اپنے قیام سے ) اب تک یہ دانش گاہ عوامی‘ سماجی‘ دینی اور علم وادب کے طبقوں کی توقعات پوری کررہی ہے۔ ہمارے اس دعوے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ یہ نادرن سندھ کی سب سے یونیورسٹی ہے جہاں 25 ہزار طلباء استفادہ کررہے ہیں جن میں 10 ہزار وہ طلباء بھی ہیں جن کا تعلق الحاق شدہ کالجز سے ہے یہی وہ جامعہ جس پر محقق صاحبان افتخار واعجاز کے کئی مینار تعمیر کررہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ ایچ ای سی کے تعاون سے 2005 میں شروع ہونے والا پراجیکٹ بائیو ٹیکنالوجی کی بطور مثال دیکھا جارہا ہے جس کی ستائش میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ 41 طلباء سوسائٹیوں میں سے کئی کمیٹیوں کے کام کا شہرہ تو پورے سندھ میں ہے۔ فلسطین‘ کلچرل‘ قومی ورثہ تحفظ اور انٹرفیتھ ہار منی سوسائٹیوں کی کاکردگی اور کارگزاری آج بھی یورنیورسٹی کا تعارف سمجھی جارہی ہیں۔ سوسائٹیوں کے پلیٹ فارم سے ہونے والے سیمینار‘ نیشنل ڈائیلاگ اور شعوری مہم کی کامیابی سے عوامی اور قومی خدمت کے چراغ روشن ہیں۔یونیورسٹی نے اپنا ایف ایم ریڈیو بھی قائم کر رکھا ہے جو طالب علموں کو نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوںکے بارے میں آگاہ کرتا رہتا ہے اور تیسرے نمبر پر سب سے اہم پیش رفت یہ ہے کہ یونیورسٹی میں طلباء کی 41 سوسائٹیاں اس وقت کام کررہی ہیں ۔ڈاکٹر علی رضا لاشاری اس کمیٹی کے انچارج اور ڈاکٹر تاج محمد لاشاری مانیٹرنگ کمیٹی کے کنوینر ہیں ۔ معزز وائس چانسلر اس کو براہ راست مانیٹر کرتے ہیں ان سوسائیٹیز میں ینگ پیس ڈویلپمنٹ کور جو پیس پر کام کرتی ہے اور خاص طور پر کیمپس میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے بہت کام کر رہی ہے پھر فلسطین کے لیے بھی کمیٹی ہے جو موجودہ صورتحال پر طلباء کو آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ اہل غزہ کی مدد کے لیے کام بھی کر رہی ہے ۔ہم جس کمیٹی سے متاثر ہوئے وہ کشمیر کمیٹی تھی۔ کمیٹی کے ممبران طلباء کو کشمیر ایشو کے بارے میں بھر پور طریقے سے آگاہ کر رہے ہیں ، طلباء وطالبات کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ دل و جان سے کھڑے ہیں ۔ ان تمام سوسائیٹیز کی سسرگرمیوںکے لیے یو ایس ایڈ کی مدد سے پاکستان میں پہلا سٹوڈنٹ ڈویلپمنٹ سنٹر بنایا گیا ہے جسے بنانے کے لیے مرتضی نور کوآرڈینیٹر فار آل پاکستان یونیورسٹیز کنسورشیم کا بہت اہم کردار ہے اس سٹوڈنٹس ڈویلپمنٹ سنٹر کی وجہ سے طلباء اور طالبات کو بہت مثبت ایکٹیوٹیز کا موقع فراہم ہو رہا ہے ۔ موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خلیل احمد ابوپوٹو کی مکمل طور پر یونیورسٹی میں میں موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔