گلزار ملک
ہمارے ہاں جب بھی کوئی منصوبہ یا قانون بنتا ہے اس پر صرف قانون بنا دیا جاتا ہے مگر عوام کی مجبوریوں اور ان کی سہولیات کو مد نظر نہیں رکھا جاتا جب ایسی ناقص پالیسیوں اور ناقص منصوبہ بندیوں پر عمل درآمد شروع ہوتا ہے تو اس کے نتیجہ میں بیچارے عوام کو جو دکھ اور تکلیفیں اٹھانا پڑتی ہیں اس کا اندازہ ان قانون بنانے والوں کو نہ تو پہلے ہوتا ہے اور نہ اس وقت ہوتا ہے جب یہ عوام تکلیف میں ہوتے ہیں۔ جس کا اندازہ آپ کو اس سانحہ سے ہو گیا ہوگا کہ شہر لاہور میں گزشتہ دنوں ایک کم عمر ڈرائیور کی گاڑی کی ٹکر سے سات افراد کے جاں بحق ہو جانے کے بعد حکومت پنجاب اور عدلیہ نے بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانے والوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس حکم کے بعد شہر لاہور میں لائسنس بنانے والوں کا رش لگ گیا ہے۔ حکومت پنجاب نے شہر لاہور کے 18 مختلف مقامات پر 24 گھنٹے عوام الناس کی سہولت کے لیے ڈرائیونگ لائسنس بنانے کے لیے سروس فرام کر رکھی ہے اس کے باوجود ان تمام سینٹرز پر عوام الناس کا رش اس قدر ہے کہ ان تمام سینٹرز میں تل دھرنے کو جگہ نہ ہے عوام کے اس رش کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس سے قبل تقریبا 90 فیصد لوگ بغیر لائسنس کے گاڑیاں ڈرائیو کر رہے تھے۔
آپ کو یاد ہوگا اس سے قبل ایک دور یہ بھی آیا تھا کہ تمام اشاروں پر کیمرے نصب کیے گئے تھے جس پر ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے والوں کا چالان گاڑی نمبر پر اس کے ایڈریس پر بھجوا دیا جاتا تھا اس طرح یہ نظام ایک عرصہ تک چلتا رہا پھر یہ نظام اس وجہ سے ناکام ہو گیا تھا کہ نقل مارنے کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے سو ہم نے اس کا قانون بناتے ہوئے عقل کا استعمال نہیں کیا کیونکہ بہت ساری گاڑیاں ٹرانسفر لیٹر پر فروخت ہوتی ہیں جس کی وجہ سے رجسٹریشن آفس میں گاڑی کسی اور کے نام ہوتی ہے چالان کسی اور کے گھر میں پہنچ جاتا تھا بہت سارے چالان اس ایڈریس پر پہنچ جاتے تھے جس نے اپنی گاڑی صرف ٹرانسفر لیٹر پر کسی دوسرے شخص کو فروخت کر دی ہوئی تھی جب کہ چالان ہونے والے شخص کی رجسٹریشن آفس میں کوئی رجسٹریشن نہیں ہوتی تھی چالان دیکھتے ہی گاڑی کا سابقہ مالک پریشان ہو جاتا تھا اور اس طرح یہ سسٹم جو بغیر کسی سوچ سمجھ کے بنایا گیا تھا وہ ناکام ہو گیا۔
اور اب آتے ہیں ڈرائیونگ لائسنس کے ایشو کی طرف اس مسئلہ نے بھی کچھ ایسی ہی صورتحال اختیار کر رکھی ہے اس وقت لاہور کے تمام سینٹروں پر ڈرائیونگ لائسنس بنوانے والے ہجوم کا آپس میں لڑائی جھگڑا روز کا معمول بن چکا ہے ان سینٹروں کی حالت کچھ ایسی ہے کہ ایک لرننگ لائسنس کے لیے شہریوں کا سارا سارا دن لگ جاتا ہے اس تاخیر اور رش کی وجہ یہ ہے کہ لائسنس بنانے والے سینٹروں پر چلنے والے کمپیوٹرز کا سلو سسٹم کا ہونا ہے اس سے پہلے لائسنس بنانے کا آخری وقت رات 12 بجے تک تھا اس کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کے حکم پر اس کا وقت بڑھا کر 24 گھنٹے کر دیا گیا ہے مگر اس کے باوجود بھی رش کا مقابلہ یہ سلو سسٹم نہ کر سکا گزشتہ رات ایک ویڈیو وائرل ہوئی کہ رات ڈھائی بجے کے قریب ایک خدمت مرکز پر لائسنس بنانے والوں کی لمبی لمبی لائنیں لگی ہوئی تھی اور لوگ اس شدید سردی کے عالم میں وہاں لائنوں میں ٹھیٹھر رہے تھے یہ سب کچھ بھی ناقص پالیسی اور ناقص منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے۔
حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ شہریوں کو لائسنس بنانے کے لیے وقت دیا جاتا اور پکڑ دکڑ مقدمات کا اندراج کرنے کا سلسلہ بھی غلط ہوا ہے اس کے لیے بھی حکومت کو وارننگ دے کر ایک بار ان بچوں اور بوڑھوں کو چھوڑ دینا چاہیے تھا مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا اب بھی وقت ہے کہ اس رش کو ختم کرنے اور سب کا لائسنس بنانے کا طریقہ یہ ہے تمام شہریوں کے لائسنس اس پیریڈ کے دوران بن جائیں گے جو وقت ان شہریوں کو دیا جائے گا اس طرح تمام لوگوں کے ڈرائیونگ لائسنس بھی بن جائیں گے اور ان سینٹروں پر رش بھی نہیں ہوگا۔ یہ رش صرف اس لیے ہے کہ تقریبا ہر دوسرے بندے کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہے اور ٹریفک پولیس والے ایسے شخص کو پکڑ لیتے ہیں اور ان کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ صرف اس لیے ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے شہریوں کے دوڑے لگی ہوئی ہیں اور یہ بیچارے شہری اس لیے ان سینٹروں پر لائنوں میں سارا سارا دن لگے رہتے ہیں پولیس کی اس کارروائی سے بچنے کے لیے لہذا میری وزیر اعلیٰ پنجاب سید محسن رضا نقوی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اس معاملے میں ذرا کچھ نرمی پیدا کریں ان لوگوں کو لائسنس بنوانے کے لیے ایک وقت دیں اگر اس وقت کے دوران یہ شہری بنائے ہوئے قانون کے مطابق لائسنس حاصل نہیں کرتے تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے بغیر کسی وارننگ کے فوری ہر کسی کو پکڑ کر حوالات میں بند کر دینا یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے اس مسئلے پر جلد نظر ثانی کریں۔