سرائیکی وسیب کا نوحہ خواں

حرفِ قلندر:پروفیسراحمد خان
Ahmadkhan9421@yahoo.com
پی ایچ ڈی کے سلسلے میں بہاولپور آنا جانا لگا رہتا ہے ایسے میں عجیب خوشگوار اتفاق سے میرا سامنا ہوگا یہ میں نے نہیں سوچا تھا بہت پیارے دوست ڈاکٹر رویفع کے گھر پہ مقیم تھا رات کے اولیں پہر بپا شورو غوغا سے یوں لگا کہ قریب میں کوئی تقریب چل رہی ہے، باہر نکل کر چہل قدمی کرتے ہوئے کھوج لگانے سے پتہ چلا کہ جس بستی میں مقیم ہوں اس کے مالکان نے اپنے اس رہائشی منصوبے کی اشتہاری مہم کے سلسلہ میں ایک مشاعرے کا  اہتمام کیا ہے جس میں ملک بھر کے نامور شعرا موجود ہیں اس طرح اچانک بنا دعوت کے آپ کو دروازے پر ایک قومی سطح کا مشاعرہ میسر آ جانا کسی نعمت مترقبہ سے کم نہیں ہوتا جب میں بے نوا چلتے ہوئے  مشاعرے کے پنڈال میں پہنچا تو جناب وصی شاہ اپنے اشعار سے محفل کو گرما رہے تھے ،ہر شاعر کی یہ کمزوری ہوتی ہے کہ وہ اپنے کلام کو ہی حرف اخر سمجھتا ہے وہ بھی اسی چکر میں تھے اور سٹیج چھوڑنا نہیں چاہ رہے تھے مگر نیچے بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے یہ آوازیں مسلسل بلند ہو رہی تھی "مخلص کو لاؤ, مخلص کو لاؤ" مجھے سمجھ نہیں ارہی تھی میں نے کہا یہاں علاقے کا کوئی شاعر ہوگا اس کے بعد  پاکستان کے مشہور مزاحیہ شاعر احمد سعید کو  لایا گیا انہوں نے بھی خوب داد سمیٹی اور آخری شاعر کے طور پر مخلص جہانگیر نامی بہاولپور کے ایک سرائکی شاعر سٹیج پر تشریف لائے حیران کن امر یہ تھا کہ پنڈال میں موجود تمام لوگ جن میں اکثریت اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے نوجوانوں کی تھی نے نصف شب پہ جس طرح اس جوان سال شاعر کا  استقبال کیا کہ وہ حیران کن تو تھا ہی اس کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب کے نوجوانوں کی ادب اور ادیب سے محبت کا مظہر بھی تھا  اب جب انہوں نے اپنا کلام پڑھنا شروع کیا تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ ان کے کلام نے مجھ جیسے مردہ ذہن اور اس مجمع کے اندر بھی بجلیاں سی بھر دیں میں نے اس کلام کو سنا اور پھر اس کلام کے ساتھ میں نے وسیب کے نوجوانوں کا والہانہ انداز میں اپنے شاعر کو تحسین کے ساتھ  جواب دینا اور پھر دوسری، تیسری نظم سنانے پر اصرار کرتے چلے جانا اس نے میرے ذہن کے اندر بہت ساری نئی چیزوں کوجنم دیا پہلے تو میں سرائکی وسیب کی ادب سے اس لگاؤ کی کیفیت کو سلام کرتا ہوں میں لاہور کا باسی ہوں یہیں پیدا ہوا ہوں یہیں پلا بڑا ہوں لیکن  میں نے اپنی نسل کا ادب سے اس حد تک لگاؤ نہیں دیکھا، وسیب کی اپنے سے بھی اگلی نسل کو جب کہ انڈرائیڈ اور سوشل میڈیا عام ہے ادب سے جڑے ہوئے دیکھا تو جو دریچہ میرے ذہن کا نوجوانوں نے وا کیا وہ یہ ہے کہ وسیب کی سیاسی اور انقلابی سوچ وسطی  پنجاب کے لوگوں سے بہت بلند ہے وسیب کے نوجوان میں غصہ دہک رہا ہے، بڑھ رہا ہے جیسے جیسے مخلص جہانگیر کے انقلابی اشعار پنڈال میں گونجتے چلے گئے ویسے ویسے نوجوانوں کا جوش و جذبہ دیدنی ہوتا چلا گیا ،میں یونیورسٹی جاتا رہتا ہوں بہت سارے ادیبوں اور پروفیسروں سے ملتا رہتا ہوں ڈیڑھ سال کے عرصے میں میرا یہ احساس ہے کہ وسیب سلگ رہا ہے وہاں کا نو جوان وڈیروں،  گدی نشینوں ،جاگیرداروں کے خلاف چنگاری سے شعلہ اور پھر آگ بننے کو ہے،اس راکھ کو کسی چنگاری کا انتظار ہے ہمارے بزرجمہر کو یہ دیکھنا ہوگا سوچنا ہوگا ہم نے سرائکی عوام کو ان کے حقوق نہ دیے تو یہ چنگاری یہ آگ یہ نوجوانوں کی ناراضگی کسی طوفاں کا پیش خیمہ نہ بن جائے یہاں مشاعرہ کا انعقاد  کروانے والی مقامی ادبی تنظیم سخن پور کی ٹیم جن میں سے کسی کو بندہ براہ راست نہیں جانتا نہ ہی کبھی  ان سے ملا ہوں  ان کا بینر پنڈال میں دیکھا اور مشاعرہ سے واپسی پہ انہیں کتابی چہرہ پہ تلاش کیا  ایسے لوگ جنہوں نے یہ رونق سجائی جس میں ملک کے نامور  شعراء موجود تھے اور جس طرح وہاں انہوں نے ادبی انداز  سے  مشاعرے کو چلایا وہ ایک قابلِ تحسین امر ہے،  اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی بھی تحسین کرنا ہوگی جنہوں نے اپنے اس جاپان ٹاؤن نامی رہائشی منصوبے کی ترویج کے لیے ادب کا سہارا لیا، موجودہ  تجارتی مسابقت کے ماحول میں ادبی محفل کو اپنی اشتہاری مہم کے طور پر استعمال کیا جانا ادب اور تجارت  دونوں کے فروغ کے لیے  ایک اچھا قدم ہے  واپسی کا سفر شروع ہوا توبہاولپور سے اسلام اباد آتے ہوئے نو گھنٹے کے طویل سفر پر موٹروے میں اس مخلص جہانگیر نامی شاعر کے اشعار اور اس کے بارے میں انٹرنیٹ پر ڈھونڈتا رہا تو میں نے دیکھا کہ اس شاعر کو میں نے تو پہلی بار سنا تھا لیکن سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگوں نے فیس بک اور یو ٹیوب پہ اسے لائک کر رکھا تھا اس کے اشعار سنے جا رہے تھے اس کی اس انقلابی صدا کو جس کے اندر وہاں کی مقامی اشرافیہ کے خلاف و غصہ ہے شکوہ ہے اپنے لوگوں کی پسماندگی پر وہ نوحہ کناں  ہے اس پر سوشل میڈیا پر لوگوں کا رسپانس دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ میں اپنے وقت کے ایک بہت بڑے شاعر کو قریب سے دیکھ کر اور اس کا کلام سن کے آرہا ہوں اس طرح کی ادبی محفلیں قوموں کے لیے روح کی تازگی کا باعث ہوتی ہیں ایسی ادبی محفلیں ہی قوموں کے اندر پیدا ہونے والی تحریکوں کا رخ  طے کرتی ہیں ایسے مشاعرے پورے پاکستان میں ہونے چاہییں ان سے نوجوانوں کو ایک سوچ ملتی ہے جس کی بنیاد پر وہ کسی بھی ایسی سرگرمی سے بچ جاتا ہے جو قوم اور  ریاست کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے ریاست کو چاہیے کہ مخلص جہانگیر کی انقلابی شاعری میں چھپے وسیب کے نوحے، ناراضگی ،غصے اور شکوے کو سنیں اور سمجھے اور محسوس کرے اور وسیب کی پسماندگی دور کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔

ای پیپر دی نیشن