جمعۃ المبارک ‘ 23جمادی الاول 1445ھ ‘ 08 دسمبر 2023ء

آٹھ فروری کو انتخابات ہوں گے، وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی۔
 چیف جسٹس کی طرف سے کہا گیا تھا کہ آٹھ فروری کو انتخابات کا انعقاد پتھر پر لکیر ہے۔ انتخابات پر شکوک کی میڈیا میں بات نہیں ہوگی۔اگر کسی نے بات کرنی ہے تو اپنی بیگم سے اپنے گھر میں کرے۔ آج کئیوں نے ڈیروں بیٹھکوں اور پبلک مقامات کو بھی گھرہی سمجھ لیا ہے۔ شکوک تو چھوٹی چیز ہے۔سترہ درخواستیں دائر ہوگئیں۔شاید درخواست گزار الیکشن کمیشن کو اپنا گھر ہی سمجھتے ہوں۔ مولانا نے ایسا بڑا اور بھاری سوال اٹھا دیا ہے جو عام جثے کا شخص نہیں اٹھا سکتا۔’ کیا دو صوبوں میں حالات انتخابات کروانے والے ہیں؟ یہ معاملات ایک طرف دوسری طرف سیاسی سرگرمیاں کونپلیں نکالنے لگی ہیں۔ میاں نواز شریف اور چوہدری شجاعت 15 سال بعد ملے ہیں۔ اگلے سال ملتے تو 16 سال ہو چکے ہوتے۔ ماشاء  اللہ مایا کو مایا ملے کرکر لمبے ہاتھ۔ایک سیاستدان دوسرے کوخشو ع و خضوع سے ملا ہے کرکر لمبے ہاتھ ،سیاست میں کچھ حرف آخر نہیں ہوتا، سیاست کا سنہرا اصول یہی نظر آتا ہے۔ باقی سیاستدان بھی اختلافات اور نفرتیں ختم کریں۔ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے نرما نرم اور گرما گرم بیان دیا ہے: ’ساری دنیا میں عمر رسیدہ سیاستدان ہیں۔ چلا کاٹنے والے جواب دیں کس ادارے سے رابطے میں تھے؟ بلاول بابے سیاست دانوں کو مدرسوں میں بیٹھنے کی تجویز دیتے تھے۔ ابا جی نے دَڑکا تو الفاظ غیر اعلانیہ واپس لے لیے۔شیخ رشید جو اب شیخ چلّا ہو چکے ہیں،گو شیخ چلی کبھی نہیں رہے۔ وہ جواب دیں؟ ویسے کاکڑ صاحب کو تو پتہ ہے مگروہ چاہتے ہیں کہ ہماشما کو بھی شیخ حرم کی زبانی پتہ چل جائے۔ ابھی شیخوپورہ سے ایک ان نون نمبر سے کال آئی۔ نام اپنا شبیربتایا ،کہہ رہے تھے ، سیاستدان انتخابی مہم میں سڑکیں ، نالیاں بنانے کے اعلانات کرتے ہیں ،وہ کرتے رہیں مگر سب کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر متفق ہو جائیں۔  جاوید لطیف کا تعلق بھی شیخوپورہ سے ہے۔انہوں نے زوردارسوال کیا ہے۔’ کیا جیل میں کسی کو دیسی مرغی ملتی ہے؟‘  جاویدصاحب! نہ کریں، ایسا نہ کریں!جیل میں اے سی بھی لگتے ہیں۔ ورزش کا سامان بھی ملتا ہے، ایسی موجییں یہ سب جان کر بہت سے دیہاڑی داروں میں جیل جانے کی حسرت انگڑائی لینے لگے گی۔
٭٭٭٭٭
پاک ایران گیس پائپ لائن اور تاپی منصوبوں پر کام جاری، وزیر منصوبہ بندی کو بریفنگ
 اِدھر نگران وزیر صاحب کو بریفنگ دی گئی اْدھر ان کے من میں لَڈْو کھل اْٹھے۔ وہ بڑے مطمئن ہو کر اٹھے کہ گیس کے دو منصوبوں پر کام جاری ہے اور یہ منصوبے نگران دور میں پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں گے یا پھر نگران حکومت کو اتنا طول دے دیا جائے کہ یہ منصوبے مکمل ہو جائیں۔ دونوں منصوبے کہیں اٹکے ہوئے ہیں، کہیں لٹکے ہوئے ہیں۔ ایران کی طرف سے گیس منصوبہ مکمل ہے۔ معاہدے کی مدت کب کی ختم ہو چکی ہے۔ ایران پاکستان سے ڈَن یعنی جرمانہ اور ہرجانہ مانگ رہا ہے۔ یا تو امریکہ یہ منصوبہ مکمل ہونے دے یا پھر پاکستان کے حصے کا جرمانہ ادا کر دے۔ تاپی منصوبہ دائمی تاپ بن چکا ہے۔ اس میں چار ممالک شراکت دار ہیں: ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور انڈیا۔ یہ دونوں منصوبے شب ہجراں کی طرح طویل ہو رہے ہیں۔یہ منصوبے خصوصی طور پر تاپی زلف یار نہیں رہا جو دوچار ہاتھ ہو یہ شیطان کی آنت بن چکا ہے جس کا کوئی انت ہوتا۔ تابی منصوبے کی تکمیل ممکن نہیں۔ نہ بھارت کے ساتھ دشمنی ختم ہو، نہ یہ منصوبہ سرے چڑھے۔ بالفرض تاپی منصوبہ مکمل ہو چکا ہوتا تو آج پاکستان کے افغانستان کے ساتھ جس طرح کے تعلقات ہیں،اب تک گیس لائن بھک سے اْڑچکی ہوتی۔تاپی گیس پر چلنے والا ہر چولہا ٹھنڈا ہو چکا ہوتا۔ یہ معاہدہ ریلے ریس کی طرح نہ سہی کے ٹو کی چوٹی کی طرح سر ہوجائے تو بھی بھلا مگر یہ ایک خواب گراں اور حسرت نا تمام بن کرمنہ چِڑا رہا ہے۔ایسے میں سبز باغوں والی بریفنگ دے دی۔ حکام کوکیا سوجھی۔
 اس زلف پہ پھپتی شب دیجور کی سوجھی
 اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی۔
نگران وزیر صاحب خوش ہوجائیں۔ آج پاکستان کو انرجی کی شدید ضرورت ہے۔ اس میں گیس سر دست سستی بھی ہے۔ گیس کے دونوں معاہدے حالات کے تناظر میں تکمیل سے کوسوں دور ہیں اْدھر گیس کے زمینی ذخائر بھی ختم ہو رہے ہیں۔ مزید کی تلاش میں جْت جائیں۔ گیس کا متبادل بجلی ہو سکتی ہے۔ وہ ایک تو کم دوسرے مہنگی بھی ہے۔ سارے ذرائع استعمال کریں، ونڈ سولر ڈیمز کی تعمیر۔ یہی بجلی سستی ترین ہو سکتی ہے تو گیس کی ضرورت شاید اتنی نہیں رہے گی۔
٭٭٭٭٭
بارات میں نوٹوں کیساتھ موبائلز فونز کی بھی برسات
یہ بارات برطانیہ پلٹ اور اَلٹ ایم پی چودھری سرور کے علاقے پیر محل کے ایک گاؤں  سے چلی۔ 10 کلومیٹرفاصلے کے دوران نوٹوں کیساتھ ساتھ موبائل فون بھی برسائے جاتے رہے۔ ویسے موبائل فونز کی اس طرح سے برسات پہلی بار سنی ہے البتہ باراتیوں میں کچھ ایسا تقسیم کر دیا جاتا جو یاداور یادگار رہے۔گزشتہ دنوں منڈی میں بھی ایک شادی ہوئی تھی۔نہیں نہیں! لاہور والی منڈی نہیں،وہاں شادیاں نہیں ہوتیں۔ یہ منڈی بہائو الدین میں ہونے والی شادی ہے۔ ویسے ایک قصبے کا نام دھوکہ منڈی بھی ہے۔ منڈی بہاؤ الدین کی اس شادی میں باراتیوں میں موبائل تقسیم کیے گئے۔ پیر محل میں ہونیوالی شادی میں موبائل برسائے گئے۔کیا وہ اصل موبائل تھے ؟ یا پھر چَھک چھیاں چھیاں والے تھے۔ موبائل بھی کیا عجب چیز ہے کیا غضب چیز ہے، لوگوں کے بہت سے مسئلے حل ہوجاتے ہیں۔زندگی سہل ہوگئی لیکن کبھی کبھی یہ موبائل صارف کوپھنسا بھی دیتے ہیں۔ شرمندہ بھی کروا دیتے ہیں۔ جنازہ جا رہا تھا ایک صاحب نے رنگ ٹون لگائی ہوئی تھی۔ شیلا کی جوانی شیلا کی جوانی،ان صاحب کال آگئی! جنازہ اور شیلا کی جوانی۔ کچھ لوگوں کی طرف سے بارات پر نوٹوں کی برسات کو اصراف سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جن لوگوں نے نوٹ لوٹے یا موبائل لوٹے ان کے گھر کا چولہا جلنے میں آسانی با آسانی ہو گئی۔تنقید کرنے والے بہرحال موجودہوتے ہیں۔ کچھ کو شاید یہ بھی رنج ہو۔ایس جنج دا سانوں کیوں نہیں دسیا۔
٭٭٭٭٭
بغیر لائسنس پالتو جانوروں کا کاروبار کرنے والوں کی دْکانیں سیل کرنے کا حکم 
لاہور کی ٹولنٹن مارکیٹ میں ایسا کاروبار شب و روز تماشے کی طرح ہوتا ہے۔ ہم تو سمجھے تھے کہ سب قانونی ہے مگر جہاں بھی ’’اہل وطن‘‘ پائے گئے جو اہلِ ایماں کی طرح کہیں سے کہیں جا نکلتے ہیں۔ دو چار روز قبل ملتان میں ہوٹل پر چھاپہ مارا گیا۔ وہاں جنگلی پرندوں اورجانوروں کے گوشت کی ڈشز بکتی تھیں۔یہ بھی غیر قانونی کاروبار ٹھہرا۔ ٹولنٹن  مارکیٹ میں کیا کاروبار کل شروع ہوا ہے؟ جنگلی جانوروں کے گوشت کی ڈشیں پہلے فروخت نہیں ہوتی تھیں؟ بات حصہ بقدر جثہ کی ہے یا افسر بدل گیا ہے۔ جنگلی جانوروں میں مارخور بھی ہے جو پاکستان کا قومی جانور ہے۔ جس نے دیکھا وہ ہاتھ کھڑا کرے۔کلاس میں پہلے سب حیران ہوئے کہ مارخور ہے کیا؟ دوسری حیرانی صرف ایک ہاتھ کھڑا ہونے سے ہوئی۔ایک سٹوڈنٹ نے کہا کہ اس نے تصویر دیکھی ہے۔ آؤ چڑیا گھر چلیں،مارخور دیکھنے۔ مگر خونخوار جانوروں سے بچ کے رہئے گا۔ کل بہاولپور کے چڑیا گھر میں پالتو شیروں نے ایک نوجوان کو چیرپھاڑ کر کھایا۔ ٹولنٹن  مارکیٹ کراچی میں بھی ہے دونوں میں اور بھی کئی جگہوں پر آزاد کرنے کیلئے چڑیاں اور دوسرے پرندے دستیاب ہوتے ہیں۔لوگ صدقے کے لیے ان کو اْڑا  دیتے ہیں۔ یہ پالتو سدھائے ہوئے کبوتر کی طرح پھر دکاندار کے پاس کسی اور صدقے کیلئے آ جاتے ہیں۔ جانوروں پرندوں سے متعلقہ کئی کاروبار ہیں۔ ان کی خوراک، ادویات یہاں تک کہ چھوٹے طوطوں کی جنس جاننے کیلئے لیبارٹریاں بھی ہیں۔ایسے طوطے love برڈز پال کر بیچنے والے طوطے اور طوطی کی تشخیص کراتے ہیں۔جنس شناسی کا ایک ہزار لیا جاتا ہے۔لیبارٹری میں صرف پَر دیا جاتا ہے۔فی جوڑا آجکل آٹھ نو ہزار میں مل جاتا ہے ،لگا دابھی لگا لیا جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن