ابن کلیم احسن نظامی کی یاد میں

پاک وہندکے معروف خطاط (حافظ محمداقبال خان لنگاہ) ابن کلیم احسن نظامیؒاپنے ہندوستان کے سفرنامے ’دلی یاترا‘کے آغازمیں لکھتے ہیں کہ وہ انڈیاکے سفر کی تیاری کررہے تھے۔ ویزہ ،پاسپورٹ کے مراحل سے گزرنے کے بعد،وہ جب اپنے گھر ملتان پہنچے تو برسات کی وجہ سے گھر کی چھت گرگئی تھی،بچے بخار سے تپ رہے تھے۔بیرون ملک جانے کا جنون اپنی جگہ لیکن گھر کی تعمیر اوربچوں کا علاج بھی ضروری تھا۔بچوں کومعالج کے پاس لے کرگئے۔عجلت میں کوئی معمار نہ مل سکا تو خود تعمیرمیں لگ گئے۔ ان کے سفرنامے کے مطالعے کے دوران جب یہ مقام آیا؛تو محسوس ہواکہ میں ابن کلیم احسن نظامی ؒ کی شخصیت کے عشق میں مبتلا ہوچکاہوں۔اہم لوگ زندگی کے مختلف مراحل پر کیسی کیسی مشکلات سے گزرتے ہیں۔ قرآنی آیات لکھنے والے معجزنما ہاتھوں کا راج گیری کرنا زندگی کی بڑی حقیقت ہے۔ان فرائض کی ادائیگی کے بعد وہ ہندوستان گئے اور مختلف شہروں میں ان کی خطاطی کے فن پاروں کی نمائشیں ہوئیں،جہاںانھوں نے خاص طور پر اپنے ایجاد کردہ ’خط ِ رعنا‘ کو متعارف کروایا ۔داد وتحسین کی بارش ہوئی ۔صاحبو!اس بات پر اشک کیوں بہائیں کہ دنیاکے اکثرعظیم شخصیات کی سوانح عمریاں اسی طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔تپسیاکرنی پڑتی ہے، کشٹ کاٹنے پڑتے ہیں۔بقول شاعر :
کیاگزرتی ہے سینۂ نے پر
یہ لبِ نے نواز کیاجانے
ابن کلیم احسن نظامی کا تعلق ملتان کے ایک معزز مذہبی گھرانے سے تھا۔ان کا نام حافظ اقبال خان تھا،لیکن آہستہ آہستہ خاندانی نام معدوم اورقلمی نام نمایاں ہوتاچلا گیا،ان کا فن، شخصیت پر یوں اثراندازہوا کہ وہ خودایک چلتا پھرتاہوا علمی فن پارہ بن گئے۔ اُن کا اِقبال اُس قلمی نام میں پنہاں تھا،جومسلم تہذیب کے اس عظیم فن سے وابستہ ہوکرانھوں نے اختیارکیاتھا۔خطاطی کا فن ابن کلیم مرحوم کو وراثت میں ملاتھا۔بلاشبہ وہ خورشیدگوہرقلم،سیدنفیس الحسینی،پرویں رقم،نادر القلم اورگوہرقلم جیسے باکمال لوگوں کی روایت کا تسلسل تھے۔ملتان میں حسن پروانہ کالونی سے متصل ایک سڑک پر،جو ڈیرہ اڈا سے بوہڑ گیٹ کی طرف جاتی ہے،دبستان فروغ خطاطی کے نام سے ان کا دفتر تھا۔یہ دفتر ان کے جینے مرنے کا محل تھا، یہاں سے ان کی ادارت میں ایک رسالہ’’کلیم ‘‘بھی شائع ہوتا تھا، یہی دفترخطاطی کی تعلیم دینے کامرکزبھی تھا ۔میں جب بھی وہاں سے گزرتا ،انھیں سر جھکائے ہوئے اپنے کام میں مگن دیکھتا۔شدید موسموں میں بھی ان کا یہی معمول تھا۔سناہے کہ اردو تحقیق کے معلم اول حافظ محمودشیرانی اورینٹل کالج لاہورمیں متعین تھے۔شدید گرمی کے موسم میں وہ پسینے سے شرابور، بنیان اورتہبند میں اپنا علمی وتحقیقی کام جاری رکھتے۔ابن کلیم کو ہم نے ہمیشہ اسی طرح مگن دیکھا،جاڑے کے موسم  میں سر پر ایک خاص قسم کی کیپ لیتے ،جو حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی ٹوپی سے مشابہ تھی۔یہ شعوری طور پرایک عظیم شاعرکی محبت میں کیا گیاعمل بھی تھا۔شاعری سے یادآیا کہ ابن کلیم احسن نظامی ایک خوب صورت شاعربھی تھے۔ متنوع موضوعات پران کی پچیس کے قریب کتابیں منظرعام پرآئیں۔بہت سی کتابوں کے مسودات ان کے فرزندارجمند معروف شاعر اورکیلی گر افرمحمدمختار علی کے پاس تاحال اشاعت کے منتظرہیں۔ان کے پسندیدہ موضوعات میں بچوں اور بڑوں کی شاعری،منتخب اوراد و وظائف ،ہندوستان اورسعودی عرب کے سفرنامے،سوانح وتواریخ اورفن خطاطی کی مسلم میراث شامل ہے۔ خطاطی کے عنوان سے ان کی آٹھ کتابیں اس نایاب فن پر ایک اثاثے کی حیثیت رکھتی ہیں۔اسلام میں دیگر عقائد ِ زندگی کے برعکس تصویرسازی اور سنگ تراشی وغیرہ کی ممانعت کا تصورتھا،اس لیے مسلم معاشروں میں آغازہی سے مصوری اور مجسمہ سازی کی بجائے خطاطی کے فن نے عروج پایا۔
ابن کلیم احسن نظامی کوخطاطی کے فن میں عالمی سطح پرپذیرائی ملی۔تمام عمر رزق ِ حلال کمایا۔ کبھی زمانے کی ناقدری کا رونا نہیں رویا۔انھوں نے بہ حیثیت خطاط،شاعر، نثرنگار،پبلشراور مدیر عزت اورنیک نامی حاصل کی۔اُن کے ایجاد کردہ ’خط رعنا‘ کوخطاطی کی دنیامیںایک عمدہ اضافہ سمجھاجاتا ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوراہل بیت کے اسمائے گرامی کی خطاطی کرتے وقت ان پر ایسی وارفتگی طاری ہوجاتی تھی جواہل عشق کے لیے مخصوص ہے۔ ایسی شخصیت اگرایران جیسے( خطاطی سے محبت کرنے والے ملک )میں پیداہوتی تواس کی یادگاربنائی جاتی۔ہمارے ہاں یہ اس لیے ممکن نہیں کہ ہم بڑے اہتمام سے اپنی ذات کے ابوالہول تعمیرکرنے میں مصروف رہتے ہیں ،اس کے بعد دوسرے ان کو مسمار کرتے رہتے ہیں۔سال 2011ء میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے سرائیکی ریسرچ سنٹر بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کو ملتانی کلچر کے فروغ کے لیے تین کروڑ روپے کی خطیررقم بطورامداد دی۔اس پراجیکٹ کے ایک ذیلی شعبے نے ابن کلیم کو’ملتان کی روایتی خطاطی‘کے عنوان سے تحقیقی کتاب لکھنے کا عندیہ دیا۔جب وہ یہ کتاب لکھ چکے تو اس کوشائع کرنے سے انکار کردیا گیا۔سناہے کہ کچھ عرصہ پہلے اسے ظہوراحمد دھریجہ کی نگرانی میں شائع کردیا گیاہے۔اگر اس طرح کے کام اشاعت سے رہ جائیں توشہروں کی تاریخ مسخ ہوجاتی ہے۔اور ہم نے گزشتہ نصف صدی میں اپنی تاریخ کو بدلنے کے سوااور کچھ کیا ہی نہیں۔مژدہ ہو کہ جہاں کارِمسیحا ئی سے منسلک لوگ بھی اپنے بدخط ہونے پرفخرکرتے ہوں وہاں قلم کی حسن کی جولانیاں کیا اہمیت رکھتی ہوںگی۔ابن کلیم احسن نظامی مرحوم کی یادگار بنے نہ بنے ،ان کا کام ان کی پہچان ہے۔ان کی اولاد میں سے جمال محسن اورمحمدمختارعلی نے نہ صرف ان کی وراثت کی حفاظت کی ہے بلکہ عصر حاضر کی ضرورتوں کے پیش نظر اس میں تجدید کے پہلو بھی تلاش کیے ہیں۔ صابر ظفرکے الفاظ میں اللہ کے اس نیک بندے کے لیے دعا ہے کہ:
کوئی  توہوگی جزا  ایسے مناجاتی کی
عمربھرجس نے ترے اسم کی خطاطی کی
٭…٭…٭

ڈاکٹر افتخار شفیع- سرمایہ¿ افتخار

ای پیپر دی نیشن