’’مجید نظامی کی حکمرانوں کو نصیحت‘

’’نظامی برادران‘‘ کی جہاں حصول پاکستان میں انتھک ۔ بے لوث خدمات کی ایک سنہری تاریخ ہے وہاں بعد از قیام پاکستان۔ ملکی سلامتی ۔بقا۔ استحکام کی جدوجہد بھی قابل تحسین ہے۔ ایک دہائی قبل ’’قبلہ مجید نظامی‘‘ نے تب کے حکمرانوں کو نہایت صائب وطن پرستی سے معمور مشورہ دیا تھا کہ ’’وہ جب تک حکومت میں ہیں تب تک اپنا کاروبار نہ کریں‘‘برسوں قبل کا مشورہ۔ عصر حاضر کے حالات۔ مسلسل حکمرانی ۔ مسلسل کاروبار کے تناظر میں اُس کی معنویت آج سب پر آشکار ہو چکی ہے۔ کوئی کتنا ہی ایماندار کیوں نہ ہو جب کسی نفع بخش کرسی پر بیٹھتا ہے تو پھر وہ کروڑوں نگاہوں کے حصار میں آجاتا ہے آج بھی ہماری تنظیمیں ۔ جماعتیں متذکردہ دانشمندانہ اصول کو اپنا لیں تو ہم انتہائی مختصر مدت میں کوہ انبار سے نکل سکتے ہیں۔’’نظامی برادران‘‘نے اصولوں پر صحافت کی بنیاد رکھی ۔ آج صحافت کا جو حال ہے وہ کِسی سے پوشیدہ نہیں ہر چیز بکاؤ مال نہیں ہوتی ۔
قلم کی حرمت کی ’’رب کریم ذی شان‘‘ نے قسم کھائی ہے جان لیں جس کے ہاتھ میں قلم ہے وہ اِس سے کیا لکھ رہا ہے۔ تعصب ۔ جانبداری۔ طرف داری کا لکھنے والا سب سے زیادہ باخبر ہے۔ صحافت کو ’’ٹِکرز‘‘ کی روش نہ بنائیں ۔ ہر خبر ’’بریکنگ نیوز‘‘ نہیں ہوتی تو ہر واقعہ مصالحے لگا کر بیان یا نشر کرنے والا بھی نہیں ہوتا۔ لکھنے والے اپنی تحاریر لکھتے وقت صرف ’’پیٹ‘‘ کو سامنے نہ رکھیں ۔کِسی تحریر ۔کسی جاہ۔ منصب کی طمع کی نیت ظاہر نہ کرنے۔ سچ ۔ وقت پر سچ اور سب کے سامنے سچ۔ صاحب قلم کا طرہ امتیاز ہونا چاہیے۔ خواہ مخواہ سنسنی خیزی۔ بے بنیاد الزام تراشی ۔ ذو معنی الفاظ میں خو د کو بے حد ’’باخبر‘‘ ثابت کرنے کی دوڑ نے ہم کو۔ ہمارے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔اتنا خسارہ کا سودا ہم کما چکے ہیں کہ ہماری نئی پود چال بازی۔ بد دیانتی ۔ تعصب سے بڑھ کر اخلاقی زوال کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ اب رُک جانا چاہیے سب کو۔ پسند نا پسند سے بالاتر ہو کر صرف اپنے وطن کی سلامتی ۔ اپنی قوم کی ترقی اور اپنے بچوں کے روشن مستقبل واسطے برسر عمل ہوں ۔تبھی خسارہ منافع میں بدل سکتے ہیں۔
بے یقینی ۔ خوف۔ انتہائی جبر۔ دباؤ کے گھٹن زدہ ماحول میں بھی حق۔ سچ کے علم بردار ’’حمید نظامی ۔ مجید نظامی ‘‘ نے اپنی آواز کو پست نہیں ہونے دیا۔ کاروان سچائی کے سُر خیل کی قیادت میں ’’نوائے وقت‘‘ نے آغاز سے ہی اعلیٰ صحافتی معیار کی بنیاد رکھ دی تھی ۔ نظریہ پاکستان ہماری بقا کا ضامن ہے کوئی بھی ترغیب اُن کو حق بات کہنے اور لکھنے سے نہ روک پائی اور نہ ہی وہ کبھی متزلزل ہوئے ۔ قارئین آج کتنے فیصد گروپ۔ اشخاص اپنے وطن کے قیام کے مقاصد پر یکسو ہیں ؟؟ پہلے والے عظیم لوگوں نے بے مثال قربانیاں دیں اور سچائی کی تلقین میں وقت کے حکمرانوں کی طاقت کی پرواہ بھی نہیں کی۔ موجودہ حالات کوئی ایک آدھ سال یا کچھ ماہ کے نہیں ۔ ایمانداری کا فقدان ہے ۔ ووٹ کا استعمال ۔ ذاتی کاروبار کی بڑھوتری کے لیے اختیار کا استعمال ۔ سچ ناپید۔ خاندان در خاندان حکمران ۔ موروثیت کوئی اتنی بُری نہیں جب تک فلاح عامہ کے کام ہوتے رہیں۔ عوامی مسائل حل ہوتے رہیں۔
چینی اور ڈالر کی قیمت واقعی بہت کم ہو چکی ہے منافع ایک حد تک کمانا بالکل درست ہے مگر ذخیرہ اندوزی قطعاً جائز نہیں اس طمع میں کہ قیمتوں کو آگ لگا کر ناجائز منافع کمائیں گے۔ ’’اناج‘‘ کو ناجائز ذخیرہ کرنے والوں کو کسی صورت نہ چھوڑا جائے اور نہ معاف کیاجائے۔ ’’قابل احترام آرمی چیف‘‘ سے بھی ملتمس ہیں کہ جائز اور ناجائز کمائی میں ضرور فرق ملحوظ رکھا جائے۔ تجویز ہے کہ رشوت خور مافیا ۔ ذخیرہ اندوز کارٹلز جو بھی ہیں چاہے کتنی ہی بڑی پوزیشن پر کیوں نہ ہوں بالکل نہ چھوڑیں ۔ سیاست سے تعلق ہے یا سماج ۔ سرکار سے رعایت نہ برتی جائے۔ ہر پالیسی ۔ فیصلہ جو قوم ۔ ملک کی ترقی ۔ استحکام کو موثر ۔ مضبوط بنائے ہمارے نزدیک قابل تعریف ہے اور ہر وہ بات۔ واقعہ جو ہمارے اداروں ۔ ملک کو نقصان پہنچائے اُس سے شدید کوفت ۔ اذیت عوام کو پہنچے۔ قطعی طور پر ناقابل معافی جرم ہے ۔ سلیوٹ ہے ’’آرمی چیف جنرل عاصم منیر‘‘ کو کہ وہ قوم کے درد کو محسوس کر کے ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں بگڑے حالات کو سنوارنے کی ۔
’’ 8کروڑ‘‘ یونٹ بجلی چوری پکڑی گئی ۔ ’’35کروڑ 20لاکھ‘‘ سے زائد جرمانے کیے جاچکے ہیں۔ کچھ کے خلاف تادیبی کاروائی ۔ کچھ کے تبادلے ۔ اب سوال یہ ہے کہ راشی افسر دوسری جگہ جاکر کیا رشوت خوری نہیں کرے گا ؟؟ ریکوری اربوں روپے کی ہے یا کروڑوں کی نہایت قابل پذیرائی عمل ۔ احوال کی درستگی کے لیے نظام کو شفاف بنانا ہوگا۔ عوام دوست حکمرانی کا نظام بالاآخر نافذ کرنا پڑے گا کیونکہ بوڑھے سے نومولود تک سبھی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ ذاتی ۔ سیاسی مفادات کی خاطر ’’اداروں‘‘ پر بے ہودہ الزامات ۔ بے سروپا بیان بازی والی روش اب ختم کرنا پڑے گی ۔ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے صبر اور برداشت بھی ایک وقت پر جواب دے جاتے ہیں ۔ سیاست کو کاروبار سمجھ کر امور حکومت چلانے والا نظام سب مل کر ختم کر دیں ۔ تو نہ مقدمات درج ہونگے نہ پیشیاں بُھگتنی پڑیں گی۔ عوام کے نمائیندے کہلاتے ہیں تو عوام کے روپ میں عوامی امور نبھانے میں کوتاہی نہ کرنے کاپکا وعدہ کریں ۔ لمبے چوڑے ضخیم ’’منشور‘‘ (لکھنے والے بھی نہیں پڑھتے) پیش کرنے کی بجائے صرف عوام کا حصہ بن کر سوچیں ۔ عوامی ذہن کو پڑھیں عمل کریں ۔ ذاتی مفادات بینک کے تحفظ ۔ بقا کی سیاست کو خیر باد کہہ دیں۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن