سقوط ِ ڈھاکہ اور سکوت علاقہ

آپ یہ جان کر حیران ہونگے کہ سقوط ڈھاکہ پر لکھی گئی وہ کتابیں جو غیر پاکستانی مصنفین نے لکھیں اور جو ہمارے ہاں  پڑھی اور پڑھائی بھی جاتی ہیں ان میں سے شرمیلا بھوس نے جو کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں اور بھارت کے قومی رہنما سبھاش چندر بھوس کی پوتی ہیں،  اپنی کتاب ’ڈیڈ ریکننگ‘ میں جھوٹے پراپیگنڈے کو بے نقاب کیا ہے ورنہ  بیشتر کا زاویہ تحریر حقائق کو چھپا کر سارا ملبہ پاکستانی فوج اور سیاستدانوں پر ڈالتا ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے اس وقت سے لے کر آج تک ہمیں سامراجی سازشوں سے رہائی مل ہی نہیں سکی۔  یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے  ہمیں کہا جاتا رہا ہے کہ ہمارا ساتھ دینا ہے یا پھر انکار کرکے اس کا خمیازہ بھگتنا ہے اور جب پاکستان چار و ناچار ساتھ دینے پر راضی ہو جاتا ہے تو روس کے کافروں کے خلاف جہاد کا جوش و جذبہ پیدا کیا جاتا ہے ، پوسٹر چھپنے لگتے ہیں ، چلو چلو افغانستان کے نعرے گونجتے سنائی دیتے ہیں اور دھڑا دھڑ مجاہدین پیدا ہونے اور جہاد فرمانے لگتے ہیں۔ لیکن جب امریکہ بہادر جنگ جیت جاتا ہے تو دنیا بھر کا سب سے پہلا دھیان انہی اسلامی مجاہدین پر پڑتا ہے۔ دنیا بھر کی خبروں میں یہی مجاہدین دہشت گرد بن کر سامنے آنے لگتے ہیں اور زیادہ تر یہ دہشت گردی خود مسلمان ملکوں کے اندر ہی ہوتی نظر آتی ہے۔ بنیاد پرستی اور انتہاء  پسندی جیسے بیانیے سامنے آنے لگتے ہیں ، پاکستان میں خود کش حملوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور بالآخر  پاکستان کو انہی طالبان پر ایکشن کرنے کو کہا جاتا ہے جنہیں پاکستان انڈیا کے خلاف اپنی دفاعی لائن قرار دیتا ہے۔ پھر پشاور سکول جیسی  بربریت اور دیگر کئی واقعات کے ذریعے  پاکستان کو بتا دیا جاتا ہے کہ نہ تمہارے بچے محفوظ ہیں نہ جرنیل ، نہ صدر نہ وزیر اعظم۔ آج کی صورت ِحال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح وہی افغانی جنہیں بھائی سمجھتے ہوئے پاکستان نے نہ صرف ہر مشکل وقت میں ہمیشہ سینے سے لگایا بلکہ اپنا پیٹ کاٹ کر آدھا کھانا دیا۔ آج انڈیا کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ پوری دنیا میں پھیلایا  جانے والا اسلامو فوبیا اور اس میں کلیدی طور پر بلکہ فرنٹ پر رکھ کر پاکستان کو دہشت گرد ملک بتایا جانا کیا کم باعث فکر تھا  جس میں سب سے زیادہ حصہ اگرچہ بھارت کا نظر آیا لیکن میری  سوئی ہمیشہ بین الاقوامی پسِ پردہ قوتوں اور ڈیپ سٹیٹ انٹرنیشنل اسٹیبلشمینٹ سے ہٹتیں ہی نہیں۔ آپ خود تجزیہ کریں کہ پچھلے سالوں میں اٹھنے والی عرب سپرنگ ، سعودی عرب میں تیزی سے آنے والی پولیٹیکل اور سوشل چینج ، سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے سیاسی اور معاشی دو طرفہ تعلقات۔ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تجارتی معاہدوں کی افواہیں اور اب حماس کے اسرائیل پر حملے میں ’’ پہل ‘‘ اور اسرائیل کے پاس غزہ کو قبرستان بنا دینے کا جواز۔ یہ سب گریٹ ڈرٹی گیم نہیں تو کیا ہے۔ اگر ایسا ہے جو کہ ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان سیاسی صورتحال کی تباہی اور نتیجتاً پاکستان کے دولخت ہونے کا سانحہ ، جنرل نیازی کا سرنڈر ،  چورانوے ہزار فوجیوں کی قید اور پھر اسکے بعد آج تک ذوالفقار علی بھٹو ، جنرل یحییٰ اور افواج ِ پاکستان کو اس قضیے میں قصوروار ٹھہرایا جانا سب ان طاقتوں کی مرضی اور منشاء کے بغیر ہوا ہو جو ہم سے صرف پوچھتے ہیں کہ یس ؟ یا نو ؟ اور نو کی صورت میں ڈھائی جانے والی قیامت کی جھلکی بھی کروا دیتے ہیں۔ بحری بیڑے کا پاکستان کی مدد کو نہ پہنچنا اور روس کا کھل کے انڈیا کا ساتھ دینا میری دلیل کی سچائی کا واضح ثبوت ہے۔ چلیں حالات کو مزید سمجھنے کے لیے تھوڑا مزید پیچھے جا کے  دیکھتے ہیں کہ قائد اعظم کی نا گہانی وفات ، لیاقت علی خاں کا قتل ، ایوب خان کا مارشل لاء ، پھر ایوب خان کی صنعتی ترقی کاپہیہ توڑنے کے لیے بھٹو کی سوشل ازم ، پھر سوشلزم کا بھرکس نکالنے کے لیے تحریک نظام مصطفی اور پھر نظام مصطفی کا راستہ روکنے کے لیے ترقی پسند ، موڈریٹ اور لبرل پاکستان۔ کیا یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ہماری وہ اسٹیبلشمینٹ جو آج تک سقوط ِ ڈھاکہ کے بعد اپنا بیانیہ تک نہیں بنا سکی وہ یک ِبار دیگر ِ اس سطح پر کامیاب منصوبہ بندی کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معصوم نہ سارے جرنیل ہیں نہ سارے سیاستدان اور نہ دیگر سارے سٹیک ہولڈرز۔ یہی تھے جنہوں نے زبان اور دیگر معاملات میں غلطیاں کروائیں اور حالات بگاڑنے پر لگے رہے۔ ہر شعبے میں موجود انہی گھْس بیٹھیوں نے  وطن عزیز کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے لیکن پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں ذوالفقار علی بھٹو ، جنرل ضیاء  الحق ،میاں نوازشریف اور افواج پاکستان کے شہداء اور غازیوں کے ایثار اور کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ افواج پاکستان کو بار بار بدنام کیا جاتا رہا اور متذکرہ بالا تین لیڈرز میں سے دو کو مار دیا جاتا ہے اور تیسرے کے ساتھ بار بار مجرم بنا کے اور وطن سے دور رکھ کے اتنی تذلیل کی جاتی ہے کہ کوئی کمزور اعصاب کا آدمی ہوتا تو اب تک دار ِ فانی سے کْوچ کر گیا ہوتا۔ اس تمام قضیے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ الزام لے دے کے افواج پاکستان کے کھاتے میں پڑتا ہے اور سارے فسانے میں ان کا نام ہی نہیں آتا جو صدیوں سے انسانی معاشروں کو سازشوں ، جنگوں اور تباہی کی نذر کرتے آ رہے ہیں۔ وہ مارتے بھی ہیں اور قتل کا الزام بھی خود مقتول کے سر دھر دیتے ہیں۔ 
 آج تک سقوط ڈھاکہ کے اسباب میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ یہ سانحہ سیاسی ، سماجی ، عسکری اور معاشی ، زیادتی ، تفاوت اور امتیاز کی بنیاد پر پیش آیا۔ آج تک جھوٹ بولا جاتا ہے کہ دونوں حصوں کے درمیان نفرت بڑھ گئی تھی ، قتل عام اور ریپ جیسے مذموم الزامات آج بھی پوری بے شرمی سے تھوپیجاتے ہیں۔ یہ واقعات اگر ہوئے بھی تو انفرادی صورت میں انسانی فطری شر کی سطح پہ ہوئے، کسی منصوبے یا فیصلے کی صورت میں ہرگز نہیں ہوئے حالانکہ خود انڈین فیلڈ مارشل مانک شا اور بھارتی مبصرین نے بار بار یہ تسلیم کیا کہ پاکستان پر  بھرپور حملے پر عملدرامد کا منصوبہ مناسب وقت کے انتظار میں تھا۔ انہی کے ہی ماہرین نے تسلیم کیا کہ افواج ہاکستان جس دلیری سے لڑیں ان کو جنگی محاذ پر شکست دینا ممکن نہیں تھا لیکن داخلی محاذ پر پیٹھ میں چھرا گھونپ کے اسے ممکن بنایا گیا۔ دوسرا مغربی پاکستان کی طرف سے مشرقی پاکستان پر  جتنی بھی زیادتیاں گنوائی جاتی ہیں آج ثابت ہوچکا ہے کہ سب زہریلے پراپیگنڈے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ معاشی صورتحال تو تقسیم کے وقت مغربی اور مشرقی دونوں حصوں کی ایک جیسی تھی۔ بنگال کا سب سے بڑا سورس آف انکم چائے کی انڈسٹری تھی جو کہ تقسیم کے بعد ساری کی ساری انڈیا کے حصے میں چلی گئی۔ ہر سال آنے والی قدرتی آفات کی رکاوٹ الگ سے تھی۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کسی ملک کے دو نوزائیدہ حصے راتوں رات ترقی کے زینے پھلانگنے لگتے۔ معاشی کمزوری پاکستان کے مشرقی اور مغربی دونوں حصوں کے لیے یکساں طور پر پلان کی گئی تھی لیکن اس کے باوجود 1947ء کے بعد مشرقی پاکستان میں صنعتی ترقی کا شاندار آغاز ہوا۔ تکلیف دہ صورت حال یہ ہے کہ آج پچاس سالوں کے بعد پاکستان کو پھر ویسے ہی حالات کا شکار کردیا گیا ہے اور ہم ہیں کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے سمجھ رہے ہیں کہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اگر اسٹیبلشمینٹ اس تمام صورتحال کو سمجھنے کی اہلیت رکھتی ہے تو عوام اور فوج کے درمیان ایک دفعہ پھر پیدا کر دی جانے والی خلیج کو دور کرنا ہوگا۔ نہیں تو الزام ایک دفعہ پھر اسٹیبلشمینٹ پر ہی آئیگا۔ کیونکہ پاکستان کے دشمن کا پہلا اور آخری نشانہ افواج پاکستان ہی ہیں۔ اگرچہ پاکستان کے معتبر صحافی اور رائیٹرز آج تک اس المیے کا احساس زندہ رکھتے آئے ہیں  لیکن  انہیں پیچھے ہٹا کر ایسے لوگوں کو بڑا شاعر ادیب اور صحافی بنا دیا گیا جن کے نزدیک ایک دوسرے کا جشن منانا اور فیسٹیولز برپا کرنا ہی مقدم و مقدس ہے۔ سمجھ سے بالا تر ہے کہ سقوط ڈھاکہ کا غم منائیں یا کسی شاعر کے جشن میں شرکت کریں۔ معاشرے کے حقیقی ادب اور ادیب کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہی اسی لیے جا رہا ہے کہ ہمیں اپنی قومی روایات کا نہ شعور رہے نہ احساس۔ ایک لمحے کے لیے سوچئے اگر آج علامہ اقبال زندہ ہوتے تو پاکستان کے دولخت ہونے پر ان کا کیا ردعمل ہوتا۔ 

ای پیپر دی نیشن