حافظ خواجہ حسنین اویسی
اللہ رب العزت نے مخلوقِ انسانی کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کیلئے انبیاء کرام ؑ کو مبعوث فرمایا۔اور علماء کو ورثاء ِ انبیاء بنایا۔ضلع ننکانہ کی دھرتی پر حضرت خواجہ نور الحسن تارک اویسی ؒبھی رسول عربی ؐ کے علم کے وارث علماء میں سے ایک گوہرِ یکتا تھے۔رہنما ایسے تھے کہ جس کا ہاتھ تھام لیا اسے منزلِ کمال کا رہرو کر دیا۔رہِ علم میں ایسا منارہ نور تھے کہ تیرگیِ جہالت میں نشان منزل کو چمکا دیا۔محبوب ایسے تھے کہ جب جب تبسم فرماتے وصل کی ساعتیں طویل تر ہوتی جاتیں۔
آپ کی دعوت و تبلیغ میں حکمت و رعنائی اور مواعظ حسنہ واضح نظر آتے ہیں۔پہلے آپ ؒنے دینی علوم میں کامیابی و کامرانی حاصل کی۔اس کا منہ بولتا ثبوت آپ کا علمی شاہکار " تفسیر نور الواعظین" ہے۔جو عربی میں لکھی گئی ہے اور اس پر جامعہ پنجاب سے Ph.d ہو چکی ہے۔پھر آپ نے تدریس کے ذریعے پیغامِ اسلام کا فیضان چار دانگ عالم میں پہنچایا اور کثیر تعداد میں علماء و فضلاء پیدا فرمائے۔تدریس اللہ عزوجل اور اس کے رسولؐ کے احکامات لوگوں تک پہنچانے کا مؤثر اور بہترین ذریعہ ہے ۔آپ کے پاس کثیر تعداد میں درس نظامی کے طلباء موجود ہوتے جنہیں آپ خود پڑھاتے تھے۔مریدین جب اپنے علاقہ میں تشریف لانے کی دعوت دیتے تو ان کی دعوت اس شرط پر قبول فرماتے کہ سارے طلباء میرے ساتھ ہوں گے۔جب سفر شروع ہوتا تو ایک گھوڑے پر کتابیں لاد دی جاتیں۔دورانِ سفر جہاں اسباق کا وقت ہوتا آپ قافلہ روک کر اسباق پڑھاتے پھر سفر جاری فرماتے۔عینی شاہدین کے مطابق سفر کے دوران آپ کی معیت میں ایک سو طلباء ہوتے۔آپ صرف خود ہی مدرس اور ولی نہیں تھے بلکہ مدرس گر اور ولی گر بھی تھے۔آپ کی تعلیم و تربیت کا حسین شاہکار آپ کے صاحبزادے حضرت خواجہ شیر محمد اویسی رحمتہ اللہ علیہ تھے۔وہ اپنے والد صاحب کی روحانیت اور مبلغانہ حسن و جمال کا عظیم مظہر تھے۔
احکاماتِ الہیہ اور احکاماتِ رسول ؐ لوگوں تک پہنچانے والے کو مبلغ کہتے ہیں۔اگر اس کی صحبت میں بیٹھنے والے گم کردہ گانِ راہِ عرفان بن جائیں تو وہی حقیقی مبلغِ ربانی ہوتا ہے۔دورانِ خطاب حضرت خواجہ صاحب کا اندازِ بیاں ایسا ہوتا کہ جملہ مباحث کی ایسی پر مغز تقطیع کہ انگلیوں کے پوروں پہ حسب ترتیب بیان ہو جاتی۔کلام ایسا با محاورہ ہوتا کہ گفتگو فوراً دل میں اتر جاتی۔کلام ایسا جامع و مانع ہوتا کہ ایجاز و اختصار دست بستہ دکھائی دیتے۔کمالِ خلوص ایسا تھا کہ ہر جلیس خود کو مقرب سمجھتا ۔ آپ کی آواز کے زیر و بم ایک متانت تھی۔ایسی متانت جو قریب و بعید حبیب و رقیب سبھی کے کیے یکساں تھی۔اگر کوئی شخص حضرت خواجہ نور الحسن اویسی کی مبلغانہ اوج کو دیکھنا چاہے تو آپ کے عارفانہ کلام و کلیات کو دیکھ سکتا ہے۔آپ کا یہ کلام ہر عام و خاص کے لیے ہے۔اگر کوئی سالک اس کو سمجھ جائے تو اس کو توحید و رسالت کا علم بھی حاصل ہو سکتا ہے،فکرِ آخرت بھی مل سکتی ہے اور معرفتِ الہی کا وسیلہ بھی۔آپ کے اس کلام میں خاص طور پر اسکا پیغام ہے۔
چھڈ سمیاں وقت جاندا کڈھ گاون یار دا
بھل جاسن سمیاں جد سد پیا سرکار دا
خواجہ نور الحسن اویسیؒ جس زمانہ میں گائوں چینڈ پور شریف تشریف لائے اس زمانے میں لوگ ذکر الہی سے غفلت،کھیل کود اور فضولیات میں مبتلا تھے۔تو آپ نے اس بیماری کی تشخیص بھی فرمائی اور علاج بھی فرمایا۔الحمد للہ کثیر تعداد شفا یاب بھی ہوئی۔آپ نے یہ جو فرمایا ہے چھڈ سمیاں "سمی" ایک کھیل اور ایک ناچ ہے جو ڈھول کی تھاپ پر کھیلا اور ناچا جاتا تھا۔یہ کام مرد بھی کرتے تھے اور عورتیں بھی کرتی تھیں۔جب انسان کی توجہ کھیل کود کی طرف ہو تو وہ یاد الہی سے غافل ہو جاتا ہے۔اور یہی چیز اس کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔اس لئے آپ نے فرمایا سمیاں چھوڑ دے اور غفلت و تباہی سے نکل۔اس کے بعد فرمایا "کڈھ گاون یار دا"۔ جب مرد یا عورتیں سمی مارتے تھے تو ساتھ گانا بھی گاتے تھے۔تو حضرت خواجہ صاحب فرماتے ہیں فضول گانوں کو چھوڑ دو اور محبوب کے ہی گْن گاؤ۔ حضرت خواجہ نور الحسن اویسی ہر ایک مرید کو اس کی حسبِ استعداد وظائف کرنے کی تلقین فرماتے اور اپنے پْر اثر وعظ میں بھی تلاوتِ قرآن مجید،نماز اور ذکر کرنے کے متعلق زیادہ بیان کرتے۔تہجد خانوں کے لیے تہجد کے متعلق فرماتے۔ذکر بالجہر مبتدی کے واسطے اور منتہی کے لیے خفی کا ارشاد فرماتے۔وعظ میں توحید و معرفت کے وہ نکات بھی بیان فرما دیتے جن سے طالبانِ حق کی عقدہ کشائی ہو جاتی اور اٹھتے بیٹھتے ذکر کرنے کی ہدایت فرماتے۔جیسا کہ اس شعر سے ظاہر ہے:
اجے بھی ویلا سمجھ کھلوویں نیکی ولے میاں
نور حسن دم غافل کافر دتا پیر سنا میاں
آپ وفات سے پہلے اکثر یہ شعر پڑھتے ۔
نور حسن دے بیڑے دی لج تینوں
کدھی لاویں او دلبرا واسطائی
11دسمبر1929 کو آپ کا وصال ہوا اور اویسیہ خاندان کا یہ آفتاب روحانی اپنی عمر کے اَسِّی مرحلے طے کرنے کے بعد غروب ہو گیا۔آپ کا 94واں سالانہ عرس مبارک ہر سال کی طرح اس سال بھی 11،12 دسمبرکوضلع ننکانہ کے قصبہ موڑ کھنڈا کے نواحی گائوںچینڈ پور شریف میں بڑے عقیدت واحترام کے ساتھ منایا جائے گا۔