مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی
ہمارے معاشرہ میں ہر سطح پر یہ عجیب وغریب وباپھیل چکی ہے کہ عام ضرورت کی اشیاء کی قلت پیدا کردی جاتی ہے اور پھر منہ مانگے دام وصول کیے جاتے ہیں اس میں بنیادی طریقہ ذخیرہ اندوزی ہے ہر وقت اور ہر قسم کی ذخیرہ اندوزی اسلام میں ممنوع نہیں بلکہ اس کے لیے خاص لفظ ’’احتکار‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے یعنی ’’اشیاء ضرورت کا اس لیے ذخیرہ کرلینا تاکہ مصنوعی قلت پیدا کرکے منہ مانگے دام وصول کئے جائیں جسے عرف عام میں مہنگائی کہتے ہیں‘‘ باالفاظ دیگر مہنگائی کے خیال سے ذخیرہ اندوزی احتکار ہے۔
’’حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا نفع کمانے والے کو رزق دیا جاتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے پر لعنت ہوتی ہے۔‘‘ (رواہ ابن ماجہ والدارمی)صاحب ہدایہ کتاب البیوع میں لکھتے ہیں ’’احتکار (ذخیرہ اندوزی) سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص غلہ یا کوئی اور جنس بڑی مقدارمیں اس لیے اکٹھی کرلے یا دوسرے سے خرید کر اس لیے جمع کرلے کہ بازار میں اس کی کمی واقع ہو اور مہنگائی ہوجائے اور تمام خریدار، ضرورت مند اسی کی طرف رجوع کریں اور خریدارمجبورہوکر ذخیرہ اندوزی کرنے والے کو اس کی مقررکردہ قیمت ادا کرے۔ ہاں البتہ اگر اس چیز کی بازار میں کمی نہیں اور نہ اس کے جمع کرنے کی وجہ سے مصنوعی قلت پیدا ہو، اوراس کے جمع کرنے کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ نہ ہوتا ہوتو یہ ذخیرہ اندوزی نہیں۔‘‘
رسول اللہ ؐ نے واضح طور پر فرمایا کہ’’ذخیر اندوزی کرنیوالا ملعون ہے۔‘‘ لعنت، رحمت کی ضدہے جب معاشرہ پر اللہ کی رحمت کے بجائے لعنت نازل ہونے لگے تو پھر رحمت کے آثار غائب ہونے لگتے ہیں اور لعنت کے آثار نظر آتے ہیں۔ رحمت کے آثار یہ ہیں کہ اس رزق میں برکت ہو‘ ایسے رزق کمانے والے کو حقیقی سکون نصیب ہو اورپھر اس حلال روزی کمانے والے کے دل میں نیک کاموں کا، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا شوق پیدا ہو۔ لیکن جب معاشرہ پر لعنت پڑنے لگے تو اس کے اثرات اس انداز میں نظر آتے ہیں کہ ہزاروں روپے کمائے جارہے ہیں لیکن زبان پر یہ الفاظ سننے میں آتے ہیں ’’اتنا کماتے ہیں پتہ نہیں کہاں جاتا ہے۔‘‘ اس کی وجہ برکت کا ہاتھ اٹھ جانا ہے‘ پھر حرام مال کمانے کے بعد سکون ختم ہوا‘ عبادات کا شوق ہی نہ رہا‘ نیک کاموں کی طرف دل مائل ہی نہیں ہوتا یہ تمام لعنت کے آثار ہیں۔ حضرت معمر سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا۔ترجمہ:
جو ذخیرہ اندوزی کرتا ہے وہ گنہگار ہے۔‘‘(رواہ مسلم)حضرت عمر ؓسے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا :جوشخص کھانے پینے کی چیزیں ذخیرہ اندوزی کرکے مسلمانوں پر مہنگائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے کوڑھ کے مرض اور محتاجی میں مبتلا کردیتا ہے۔(رواہ ابن ماجہ)
ابن قدامہ المغنی کے باب الاحتکار میں روایت کرتے ہیں کہ ’’حضرت عمرؓ نے ایک دوکاندار کو ذخیرہ اندوزی سے منع فرمایا اور ساتھ رسول اللہ صلی اللہ ؐکا اس کام سے روکنا بھی واضح کیا لیکن وہ باز نہ آیا اور کوڑھی بن گیا۔‘‘
علامہ شوکانی نیل الاوطار جلد دوم ص181میں لکھتے ہیں کہ ’’حضرت علیؓنے ایک ذخیرہ کرنے والے کا غلہ جلادیا۔‘‘صاحب ہدایہ کتاب الکراھیہ میں لکھتے ہیں کہ’’جب ذخیرہ اندوز کا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ ذخیرہ اندوز کو حکم دے کہ وہ اپنے اور اپنے گھروالوں کے کھانے پینے کا خرچہ علیحدہ کرکے جو کچھ بچے اسے بیچ دے اور قاضی اسے ذخیرہ اندوزی سے روک دے، اگر وہ تاجر دوبارہ اسی جرم میں ملوث ہوکر عدالت میں آئے تو قاضی اسے قید کردے تاکہ عام لوگوں کو نقصان پہنچنے کا ذریعہ ختم ہوجائے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا۔ ’’جو شخص چالیس دن ذخیرہ اندوزی کرے اور ذخیرہ اندوزی کا مقصد مہنگائی ہوتو وہ اللہ تعالیٰ سے بری ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے بری ہے۔ (رواہ رزین)
حضرت ابواْمامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا۔
’’جو شخص چالیس دن تک غلہ مہنگائی کے خیال سے ذخیرہ کرے پھر(غلطی کا احساس ہونے پر) وہ تمام غلہ صدقہ کردے پھر بھی اس کی غلطی کا کفارہ ادا نہیں ہوتا۔‘‘(رواہ رزین)
حضرت معاذؓسے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا۔
ترجمہ:’’وہ ذخیرہ اندوز بندہ برا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ بھاؤ سستا کردے تو غمگین ہوجاتا ہے اور جب مہنگا کردے تو خوش ہوجاتا ہے۔‘‘(رواہ البیہقی)
ان تمام ارشادات نبویہ اور تعلیمات اسلامی کے پیش نظر یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ذخیرہ اندوزی کتنا گھناؤ نا فعل ہے کہ ذخیرہ اندوزی کرنے والے ایسے ملعون تاجروں کو ارشادات نبویہ یاد رہنے چاہئیں ان کے مالوں میں برکت نہ رہے گی، اللہ تعالیٰ انہیں محتاجی اور کوڑھ میں مبتلا کردیں گے‘ یہ حرام مال کھائیں گے توا رشاد نبوی کے مطابق ان کی دعائیں بھی قبول نہ ہونگی۔