بھارت کی طرف سے خارجہ سیکرٹریز کی سطح پر خطے کے امن کےلئے مسائل کے حل کی بابت ”مذاق رات“ کی پیشکش آئی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت ہمارے ارباب بست و کشاد سبھی اس پیشکش پر شادمان ہیں۔ اس سے قبل مشرف و واجپائی سطح پر بھی پاک بھارت متعدد مذاکرات کی محفلیں سجتی رہی ہیں بلکہ ہماری 62سالہ تاریخ میں پاک بھارت تعلقات کو معتدل و نارمل رکھنے کیلئے مسائل کے حل کے حوا لے سے دونوں ملکوں کے مابین بیسیوں ”مذاق رات“ ہوتے رہے ہیں۔ گذشتہ بیسیوں تاریخی پاک بھارت اعلیٰ سطحی مذاکرات کے باوجود ہمیں تعجب سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج بھی پاک بھارت کشیدگیاں بدستور قائم ہیں؟ خطے کے امن کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ دیپک کپور جیسی بھارتی آرمڈ فورس کی للکار کی صدائے بازگشت ہمارے کانوں سے ٹکرا رہی ہے اور ہر روز بھارتی نیتاﺅں کی پھبتیاں زور پکڑتی رہتی ہیں۔ اب یہ بات تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ بھارت اپنی سیاسی و سفارتی حکمت عملی کے مطابق خطے میں امن کے قیام کا متولی بنکر ”مذاق رات“ کی محفل سجا کر، اس ”مذاق رات“ کی آغوش میں پاکستان کو اپنی مکاری کی ضربوں سے سہلاتا ہے۔ صرف دو روز قبل یعنی 5فروری کو پوری دنیا میں یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا۔ اس موقعہ پر تمام سنجیدہ حلقوں نے زور دیا کہ جب تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر استصواب رائے سے حل نہیں ہو جاتا۔ اس وقت تک خطے کا امن خطرے میں ہی رہے گا جبکہ بھارت نے کشمیر کو اپنی قانونی ریاست قرار دیکر اور پاکستانی پانیوں پہ ڈاکہ زنی کر کے جو غاصبانہ کردار اپنایا ہے کیا اس تاریخ میں ہم بھارت کے ساتھ اپنے مذاکرات میں دوٹوک یہ بھی سن چکے ہیں کہ کشمیر پہ نہیں بلکہ بھارت کے ساتھ پاکستان صرف تجارتی تعلقات کے استحکام کےلئے بات چیت کرے.... انہیں مذاکرات کے نتیجوں کے طور پہ پاک بھارت دوستی بسیں چلیں، دوستوں کے طائفے ایکسچینج ہوئے، بارڈر لائنوں کے خاتمے اور اکھنڈ بھارت کی سازشیں پلیں اور کشمیر کا مسئلہ خطے کے امن کے واسطے سرد خانے میں ڈال دیا گیا اور اسی فضاءبد میں بھارت نے 212 ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کر کے پاکستانی دریاﺅں پہ62ڈیم تعمیر کرنے کے اپنے غاصبانہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے موقع کا فائدہ اٹھایا۔ یہ نتیجہ تھا ہمارے پاک بھارت اعلیٰ سطحی مذاقراتوں کا کہ مسئلہ کشمیر تو کجا ہم قلت پانی کے سبب مسئلہ پیداواری توانائی کے بھی شکنجے میں جکڑے گئے۔ پاکستان کی پیداواری توانائی و استحکام کا انحصار زراعت پہ ہے۔ بھارت کی اس آبی جارحیت کے سبب پاکستان کی ہر سال ہزاروں ایکڑ زمین بنجر ہو رہی ہے اور ملک کی معیشت کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔ یہ تو حال ہے پاک بھارت گذشتہ مذاکرات کا....
بات مذاکرات کی میز سجانے کی نہیں بات اپنا موقف موثر انداز سے جراتمندانہ پیش کرنے کی ہے۔ بات اعلیٰ سطحی بات چیت کی نہیں.... بات قومی مفادات کے تحفظ کی ہے.... اس موقع پر جب کہ بھارتی پیشکش پہ ہمارا خارجی امور کا قومی نمائندہ بھارتی مذاکراتی میز پہ قومی نمائندگی کا فرض انجام دے گا۔ قوم کا سوال ہے کہ اگر ہماری قیادت غلامی و دباﺅ میں جکڑی ہو گی، بھارتی خوشنودی کا ہی لحاظ رکھے گی جیسا کہ پہلے بھی بار ہا ہوا ہے تو ہم کس طرح بھارتی مذاکرات کی میز پر اپنے قومی مفادات و خود مختاری کے احساس و عزت و حمیت کے وقار کی جنگ جیت سکیں گے؟ حالانکہ جابر و مکار دشمن کے مقابلے میں ہمارا موقف مبنی بہ انصاف و اصولی ہے۔ یاد رکھئے خوف و دباﺅ کا شکار رہنے والے آزاد و خود مختار زندہ قوموں کے سوداگر ہوتے ہیں جن کے ناقابل معافی جرائم خود مختار قوموں کی آزاد حیثیتوں کو داﺅ پر لگا دیتے ہیں۔ مخلص، محب وطن اور جراتمند قیادت آج وقت کی اہم ضرورت ہے۔ زرداری، گیلانی، کیانی، قریشی صاحبان اللہ نے آپ کو اگر موقعہ دے دیا ہے تو قومی مفادات کی جنگ بے خوف ہو کر لڑیں۔ قیام پاکستان اللہ کی مرضی ہے ہم ایٹمی طاقت ہیں، اسلامی دنیا کی ہم نشاة ثانیہ ہیں اور عالمی برادری میں پر امن و باوقار ہیں۔ -1 مسئلہ کشمیر-2پانی کا مسئلہ-3دہشت گردی کا مسئلہ اور دیگر سفارتی معاملات ایک بار پھر عالمی فوکس میں ہیں۔ پاک بھارت بازیاں ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر آ گئی ہیں۔ بھارت کو مذاقرات کی میز پر سامنے والے کو چت کرنے کی عادت ہے۔ حقیقت سے آنکھیں کیوں چرائیں اب کہ بازی قومی مفادات نے جیتنا ہے قوم کا فرض اور اپنا فرض یاد رکھئے!!