اسلام آباد(سہیل عبدالناصر) مشکوک امریکیوں کی کئی برسوں سے پاکستان بلا روک ٹوک آمد با لآخر رنگ لائی ہے اور سانحہ لاہور نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو نہ صرف ترقی معکوس سے دوچار کر دیا ہے بلکہ پاکستان کے عوام سے دوستی استوار کرنے کا امریکی خواب بھی بکھر گیا ہے۔ مستند ذرائع کے مطابق صورتحال یہ ہے کہ امریکی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دے رہے۔ پاکستانی عوام کے جذبات کی پرواہ کئے بغیر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کیلئے پاکستان کی وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت پر الگ الگ دباﺅ ڈالنے کے تمام تر ہتھکنڈے آزمائے جا رہے ہیں۔ امریکہ نے دوطرفہ مراسم کو بھی ایک سطح پر منجمد کر دیا ہے اسی وجہ سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی میونخ کی سکیورٹی کانفرنس میں بھی شرکت کیلئے نہیں گئے جہاں انہوں نے پاکستان کی نمائندگی کرنی تھی۔ مذکورہ ذریعے کے مطابق امریکہ کی طرف سے میونخ میں ہلیری کلنٹن کی پاکستانی ہم منصب کے ساتھ ملاقات سے انکار ہی شاہ محمود قریشی کی اس کانفرنس میں عدم شرکت کا سبب بنا۔ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی کشیدگی کا اس بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رواں ماہ چوبیس تا چھبیس فروری تک واشنگٹن میں پاکستان افغانستان اور امریکہ کے وزرائے خارجہ کا سہ فریقی اجلاس منعقد ہونا ہے۔ موجودہ حالات میں اس اجلاس کا انعقاد بھی کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ ایک ذریعے نے نوائے وقت کو بتایا کہ اگر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی عمل میں نہ آئی تو مذکورہ سہ فریقی اجلاس منعقد نہیں ہو سکے گا کسی بھی گفتگو سے پہلے امریکیوں کا اصرار ہوتا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو کب رہا کیا جا رہا ہے۔ امریکی اب خود بھی اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ مقتول فہیم کی بیوہ کی خودکشی کی وجہ سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے اور حکومت پاکستان کیلئے فوری طور پر ریمنڈ کو رہا کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ان حالات میں امریکہ اور پاکستان دونوں کو آنجہانی رچرڈ ہالبروک کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ پاکستان کو شکایت ہے کہ امریکہ کو بار بار باور کرایا گیا تھا کہ یہاں اس کے دندناتے اہلکار کسی وقت بھی حکومت کیلئے ناگفتہ بہ صورتحال پیدا کر سکتے ہیں اور بالآخر ایسا ہی ہوا۔آنجہانی ہالبروک پاکستان کیلئے نہ صرف قابل قبول شخصیت تھے بلکہ امریکہ کے اکثر پالیسی ساز بھی ان کی تکریم کرتے تھے۔فی الوقت، واشنگٹن اور اسلام آباد کے پاس معمول کے سفارتی روابط کے علاوہ ایسا کوئی طریقہ کار نہیں جس کے ذریعے وہ اس پیچیدہ سفارتی بحران سے نکل سکیں۔