دھرنے پہ دھرنا

مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں تقریباً تمام اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمنٹ ہا¶س کے سامنے دھرنا دیا اور چار نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا۔ اپوزیشن کے مطالبات میں چاروں صوبوں کے گورنر اور اعلیٰ افسران کو تبدیل کرنا‘ سندھ‘ بلوچستان میں اپوزیشن لیڈر مقرر کرنا‘ کراچی میں نئی حلقہ بندیاں کرنا اور انتخابی فہرستوں کی تصدیق کرنا شامل ہیں۔ الیکشن کمشن کی تشکیل نو کی سب نے مخالفت کی‘ اور ”گو زرداری گو“ کے نعرے بھی لگائے۔ اس مارچ اور دھرنے میں عمران خان کی تحریک انصاف نے حصہ نہیں لیا۔ جس سے تحریک انصاف قریب قریب پورے جمہوری سسٹم سے آ¶ٹ ہو کر رہ گئی ہے۔ اگر عمران خان اس دھرنے میں شریک ہو جاتے تو کم از کم ”مین سٹریم“ میں شامل ہو جاتے اور آئندہ الیکشن میں ان کی ساکھ بہتر ہو جاتی۔ اب نہ تو وہ حکومت کے حمائتیوں میں شامل ہیں اور نہ اپوزیشن کے ہم نوا ہیں۔ یوں ان کی سیاسی پوزیشن پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے کہ وہ کس منزل کے مسافر ہیں؟
علامہ طاہر القادری کے مارچ اور دھرنے کے دوران بھی‘ جب عدالت عالیہ کی طرف سے وزیراعظم کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری ہوئے تھے‘ عمران خان نے فوری طور پر علامہ طاہر القادری کے دھرنے میں شمولیت کا ارادہ کر لیا تھا۔ لیکن اپنی جماعت کے سینئر سیاست دانوں کے مشورے سے اپنا ارادہ ترک کر دیا.... اگر عمران خان ”سولو فلائٹ“ کا خواب دیکھ رہے ہیں تو پھر واقعی وہ خوابوں کی دنیا سے ابھی باہر نہیں آئے۔ طاہر القادری کے دھرنے کا جو انجام ہوا‘ اس سے ایک بات کھل کر سامنے آ گئی کہ علامہ صاحب اور حکومت میں پس پردہ پہلے سے کوئی ڈیل ہو چکی تھی اور اب جبکہ علامہ طاہر القادری نے ”شیخ الاسلام“ کے جُبّے کے اوپر سیاست کا چولا دوبارہ پہن لیا ہے تو اس کا صرف ایک ہی مقصد نظر آتا ہے.... کہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بنک تقسیم کیا جا سکے۔
چونکہ میاں نوازشریف اس وقت سیاسی افق پر سب سے نمایاں اور موزوں ترین لیڈر کے طور پر ابھر آئے ہیں۔ لہٰذا پی پی پی اور مسلم لیگ (ق) کو پِسّو پڑ گئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی روز بروز بڑھتی ہوئی مقبولیت نے پی پی سمیت تمام حکومتی جماعتوں کو پریشان کر دیا ہے۔ لہٰذا کبھی عمران خان کو آزمایا جاتا ہے‘ کبھی علامہ طاہر القادری کو پرکھا جاتا ہے۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ میاں نوازشریف نہایت تحمل اور تدبر سے اپنی چالیں چل رہے ہیں۔ ان کے دھرنے کا مقصد انتخابات کا بروقت انعقاد اور انتخابی عمل کو صاف شفاف بنانا ہے۔ ان کے تمام مطالبات آئین کی رو سے قابل عمل اور قابل تسلیم ہیں۔کچھ لوگ مسلم لیگ (ن) کے دھرنے کو علامہ طاہر القادری کے دھرنے کی نقل قرار دے رہے ہیں۔ لیکن پاکستانی عوام اب اتنے بُدھو اور ناسمجھ بھی نہیں کہ صحیح اور غلط میں تمیز نہ کر سکیں۔ طویل آمرانہ ادوار میں پِس پِس کر جینے والے پاکستانی جمہوری ذہن رکھتے ہیں اور اب تو ایک ریڑھی بان اور ان پڑھ بندہ بھی اس قسم کی سیاسی گفتگو کرنے لگا ہے کہ اس کی ذہانت کی داد دینا پڑتی ہے۔
میاں نوازشریف نے پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کی خاطر بڑی جدوجہد کی ہے اور بڑی قربانی بھی دی ہے۔ حتیٰ کہ انہوں نے دس سالہ جلاوطنی بھی برداشت کی ہے۔ اب وہ ایک منجھے ہوئے سیاسی قائد ہیں۔ جو حقیقی معنوں میں پاکستان کو قرآن و سنت کی روشنی میں حضرت قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کی تمنا کے مطابق ایک اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی مملکت بنا سکتے ہیں۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت ”پروف“ کروانے کا سہرا بھی میاں نوازشریف کے سر ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے اگر پانچ سال مکمل کر لئے ہیں تو اس میں بھی مسلم لیگ (ن) کا تعاون شامل ہے۔
ابھی الیکشن میں کافی وقت ہے۔ لیکن تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے دانت تیز کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ آئندہ چند روز میں کیا ہونے والا ہے؟ .... کچھ غیر جمہوری قوتوں کی آنکھوں میں یہ جمہوری دور کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ وہ اسے سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گی۔
ابھی پرویز مشرف کے پاکستان آنے اور الیکشن میں حصہ لینے کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں۔ کچھ عناصر فوج کو بھی آوازیں دے رہے ہیں۔ اب یہ تمام سیاسی اور جمہوری جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جمہوریت کے اس پودے کی حفاظت کیلئے یکجا ہو جائیں۔ جو ابھی جڑ پکڑ رہا ہے۔ تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر جمہوریت کے استحکام پر توجہ دی جانی چاہئے تاکہ آئندہ کبھی پاکستان کے رخ روشن پر آمریت کا گرہن نہ لگ سکے۔ پی پی پی کو اگر یہ اندیشہ ہے کہ وہ آئندہ الیکشن کے نتیجے میں حکومت نہیں بنا سکے گی تو بھی اسے مسلم لیگ (ن) کو سپورٹ کرنا چاہئے تاکہ جمہوری سسٹم بحال رہے ....
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گُل‘ جسے اندیشہ¿ زوال نہ ہو

ای پیپر دی نیشن